حضرت آیت اللہ کمیلی خراسانی (دامت برکاتہ) علامہ محمد حسین حسینی تہرانی (رہ) کی وفات کے بعد معرفت نفس کے بزرگترین اساتذہ میں شمار ہوتے ہیں کہ جنہوں نے سالوں سے سیر و سلوک اور عرفان شیعی کا پرچم اپنے ہاتھوں میں اٹھا رکھا ہے۔ حضرت استاد نے پہلے کے اساتذہ کی طرح معرفت کے طالبین اور خداوند کے مشتاقین کو عالم نفس میں داخل، اور انکے نفوس کی تربیت کی زمہ داری ادا کر رہے ہیں۔ حضرت آقا کا تربیت کا طریقہ اور انکے سلوک کی خصوصیات ذیل میں ہے۔
1. اس طریقت کے تمام اساتذہ علماء اور مراجع کرام میں سے تہے، پس اس راہ میں منحرف ہونے کا خطر نہیں ہے، حضرت استاد نے کتاب (المطالب السلوکیہ) میں اپنے عرفان عملی کے اساتذہ کا سلسلہ اس طرح نقل کیا ہے۔
عارف عامل، جو معروف ہے (جولا) کے نام سے جنکا پیشہ ٹیکسٹائل تہا۔
سید علی شوشتری جو مرحوم شیخ مرتضی انصاری کے استاد تھے
میرزا حسینقلی ہمدانی جو نجف اشرف میں تمام سالکین کے استاد تھے جنکی قبر امام حسین علیہ السلام کے حرم میں ہے
سید احمد کربلائی جو امام علی علیہ السلام کے حرم میں مدفون ہیں
میرزا سید علی قاضی طباطبائی جو وادی السلام میں مدفون ہیں
مرحوم سید ھاشم حداد موسی کربلا میں وادی الصفی میں مدفون ہیں
یہ اساتذہ کا پاک سلسلہ علامہ تہرانی نے اپنی کتاب رسالہ لب اللباب میں نقل کیا ہے۔2. توحید پر توجہ (سیر و سلوک اور معرفت نفس کی اصل خصوصیت) ہے۔
3. کرامات اور مکاشفات کی طرف توجہ کا نہ ہونا، کیونکہ جس طرح حضرت استاد نے فرمایا کہ یہ توجہات سالک کے لئے سیر و سلوک میں توقف کا سبب بنتی ہے۔
4. تربیت کا معیار معرفت نفس ہے جو خداوند کی طرف سب سے دقیق اور سب سے نزدیک راہ ہے۔
5. اس روش کا اتصال (امام زمانہ عجل اللہ تعالیٰ فرجہ الشریف) کی طرف ہوتا ہے۔
6. سالک کو اس راہ میں پوری طرح منظم اور دقیق ہونا ہوگا، اس عنوان سے 71 دستور العمل ہیں جنکا لحاظ رکھنا سالک کے لئے ضروری ہے. سالک کو چاہئے کہ ان اعمال کو ایک دفتر میں لکہ کر رکہے تاکہ اس راہ میں ترقی کر سکے اور استاد اس کی اعلیٰ مراحل میں راہنمائی کر سکے۔
7. استاد کمیلی اپنے استاد حاج سید ھاشم حداد کے مانند ہیں اور اپنے استاد کی صفات اور انکی تربیت کی روش کو ارث میں حاصل کیا ہے اور یہ بات انصافا صحیح ہے۔
8. استاد کی تربیت کا طریقہ یہ ہے کہ، دستورات سلوکی اور جلسات عرفانی کو اہمیت دینا سالک کے لئے لازم ہے۔
9. شاگردوں کو اہمیت دینا اور انکی عرفانی ترقی کو زیر نظر رکہنا۔
10. شرع مقدس سے متابعت :
1. واجبات اور مستحبات کا انجام دینے
2. محرمات اور مکروہات سے پرہیز کرنا
3. مباح کاموں میں بہی خداوند کی رضایت حاصل کرنا تاکہ ان اعمال کا بہی حساب عبادات میں ہو سکے
4. معصومین علیہم السلام کی سیرت اور انکی سنت پر عمل کرنا
11. اس طریقت کا مقصد اور عارف کا ہدف توحید ہے، نہ کشف و کرامات (اہل معرفت حضرات کی علمی اور عملی نظریہ کے مطابق)
12. حقیقت توحید اور ولایت ایک دوسرے سے جدا نہیں ہے (عرفا کے نظریہ کے مطابق)
13. معنوی سفروں میں استاد کے ہمراہ رہنا (جیسے حج اور معصومین علیہم السلام کے حرم مطہر کی زیارت) تاکہ استاد کی معنویت سے استفادہ کر سکے۔
14. استاد کا معنوی اور روحانی تصرف جو سالک کے لئے ترقی کا باعث بنتا ہے جسے معرفت توحید کے دروازے کھول جاتے ہیں اور سالک خدا کی ذات میں فانی ہوتا ہے۔
15. ان مسائل میں اعتدال سے کام لینا اور استقامت کرنا استاد کمیلی کی عملی روش میں سے ہے، استاد ہمیشہ اپنے شاگردوں کو صبر اور استقامت کی دعوت دیتے ہیں۔
16. دستورات اربعینی کو اہمیت دینا اس راہ کے اسلوب میں سے ہے۔
17. حدیث عنوان بصری پر توجہ : حضرت آیت اللہ کمیلی خراسانی اس روایت کی طرف ایک خاص توجہ رکہتے ہیں، اس روایت کا ہفتہ میں ایک بار مطالعہ کرنا استاد کے دستورات میں سے ہے اور شاگردوں کو یہ سفارش کرتے ہیں کہ اس حدیث کے مضامین پر توجہ دیں اور اس پر عمل کریں تاکہ (نفس امارہ اور خواہشات نفسانی جو مادی، شہوی اور غضبی ہیں جو غالباً کینہ، حرص، شہوت، غضب اور مادی لذتوں میں غرق ہونے سے پیدا ہوتی ہے) ان چیزوں سے رہا ہو سکیں۔