شبِ قدر کی فضیلت اور صفاتِ متقین کی شرح
*خطاب: حضرت آیت اللہ محمد صالح کمیلی خراسانی دام ظلہ*
*بسم اللہ الرحمن الرحیم الحمد للہ رب العالمین و صل اللہ علی محمد و آلہ الطاہرین*
*مناجات نامہ*
الہی آج رات میں اپنی توبہ سے توبہ کرتا ہوں!
الہی آج رات میں سمجھ گیا ہوں کہ اگر بہشت شیرین ہے تو بہشت کا خالق اس سے زیادہ شیرین تر ہے!
الہی میں آج رات سمجھ گیا ہوں کہ اگر میں بندہ نہیں بن سکا تو تُو میرا مولا و آقا ہے!
الہی آج کی رات شکر کرتا ہوں اور وہ سب چیزیں سمجھ گیا ہوں جو آج تک نہیں سمجھی تھیں اور اس بات تک پہنچا ہوں کہ آج تک میں کسی مقام تک نہیں پہنچا!
الہی تیرا شکر ہے کہ میں آہستہ آہستہ بندگی اور عبدیت کا مزہ چکھنے لگا ہوں!
الہی میں آج رات سمجھ گیا ہوں کہ خوشبخت ہیں وہ لوگ جنہوں نے دل تیرے حوالے کر دیا ہے!
الہی! آج تک اپنی نادانی کی وجہ سے تجھ سے خوف کھاتا تھا لیکن اب جبکہ دانا ہوا تو اپنے آپ سے ڈرتا ہوں چونکہ آپ بہت خوب اور اچھے ہو لیکن جو مجھے جہنم کا ایندھن بنائے گا اور مجھے نیست و نابود کرے گا وہ میں خود ہوں
قَالَ مُوسَى اِلَهی أُرِیدُ قُربَکَ قالَ: قُرْبِی لِمَنِ اسْتَیقَظَ لَیلَهَ القَدرِ،
قالَ: اِلَهی أُریدُ مِنْ أشْجارِ الْجَنَّهِ وَ ثَمَرِها، قالَ: ذلِکَ لِمَنْ سَبَّحَ تَسْبیحاً فِی لَیلَهِ القَدر،
قال: اِلَهی أُریدُ رِضاکَ، قالَ: رِضای لِمَن صَلَّی رَکعَتینِ فِی لَیلَهِ القَدر
قالَ: اِلَهی أُریدُ النَّجاهَ مِنَ النَّارِ، قالَ: ذَلِکَ لِمَنِ اسْتَغْفَرَ فِی لَیلَهِ القَدْرِ،
*ترجمہ اشعار*
شبِ قدر کا حق تمام راتوں سے مخفی و پنہاں ہے
تاکہ ہر انسان ہر رات اس امتحان سے گزرے
اے جوان! نہ ساری راتیں شب قدر ہیں
اور نہ ساری راتیں شب قدر سے خالی ہیں
یہ وصال کی رات ہے اور ہجر کے خط کیساتھ طے ہوئی
سلام ہو اس رات میں اور فجر کے طلوع ہونے تک
اے دل! عشق میں ثابت قدم رہو
چونکہ اس راہ میں کوئی بھی کام اجر کے بغیر باقی نہیں رہتا
اے صبحِ روشن تجھے خدا کی قسم میرے دل میں طلوع کرو
کیونکہ یار کے شبِ فراق اور ہجر میں میرا دل تاریک ہو چکا ہے
میرا معشوق میرا دل لے کر چلا گیا لیکن میں اسکا دیدار نہ کر سکا
فریاد اور فغاں ہے اس ظلم و ستم پر، آہ اور افسوس ہے اس ہجر و فراق کی رات پر
شب قدر ایک ایسی رات ہے کہ جس میں دیدار اور وصال کی امید رکھ کر بیدار رہنا چاہیے
سلام کے پاک جام سے مطلع الفجر تک مست رہنا چاہیے. شب قدر کو شبِ وصل(ملاقات) کہتے ہیں ہجر کا خط اس رات پڑھنا چاہیے اور تمام مراحل کو عبور کرنا چاہیے
ایسی رات ہے جس کی طلب میں کوشش کرنی چاہیے اور بیدار رہنا چاہیے اور دیدار کرنا چاہیے اور اس رات کو دعا و ستائش پروردگار میں بسر کرنا چاہیے. ہمیں اپنی اور شب قدر کی اہمیت کو جاننا چاہیے. آج کی رات خودسازی، دعا اور غوروفکر کرنے کی رات ہے اور اللہ کی رسی کو مضبوطی سے تھامنے کی رات ہے. یہ رات اپنے دل کیساتھ تنہا رہنے کی رات ہے! تو ابراہیم علیہ السلام کی طرح شہر کے بت خانے میں میں ہو!
تو ہے اور ایک فطرت ہے. فطرتِ صبر، فطرتِ عزم، فطرتِ توکل و سرگوشی! پس ان زنجیروں کو توڑ ڈالو اور اسی طرح بے معنی مادی روحوں اور ہراسگی کو ختم کر ڈالو! تو مقتل اسماعیل میں کھڑا ہے کہ حتماً اپنے نفس امارہ کا سر کاٹو! بس وہی چاہو جو خدا چاہتا ہے. ڈرو نہیں اور عصای موسیٰ علیہ السلام کو پھینکو اور توہم پرستی اور جبر کا طومار لپیٹو. شبِ قدر نئے سال کا آغاز ہے.
شب قدر گذشتہ سال کی انتہا اور نئے سال کی ابتداء کا نام ہے. پس نئے سال کا آغاز پاک نفس کیساتھ کرو. امام صادق علیہ السلام فرماتے ہیں: «لَیلَۃُ القَدْرِ ھِیَ رأس السَّنہ». تراسی سال یا کم! یعنی ایک عمر! خصوصاً ان ایام میں جہاں انسانی زندگی انتہائی کم ہے اس رات کو درک کرنا ایک آرزو ہے. کیا کوئی یقین کر سکتا ہے کہ اتنا عظیم ثواب ایک رات میں نہاں و چھپا ہوا ہے! کیسے ہو سکتا ہے کہ ایک رات اتنی زیادہ نورانیت کو اپنے اندر جذب کر سکے؟ اس سوال کا ایک ہی جواب ہے اور وہ خدا کا بیکراں لطف و کرم ہے اور خدا کے ان ہزار ناموں کی تجلی ہے جن ناموں کیساتھ ہم دعائے جوشن کبیر میں ندبہ کرتے ہیں. شبِ قدر انسانی روح کی زمین سے عرش برین تک عروج کا نام ہے. شب قدر میں ہم بیدار رہتے ہیں اور غفلتوں کو اتار پھینکتے ہیں تاکہ بخشش کی مٹھاس اور شیرینی کو چکھ سکیں. شبِ قدر ایمان کے پودے کا انسانی جان کے باغ میں پھلنے پھولنے کا نام ہے.
*تقدیر و اختیار کا مفہوم*
شبِ قدر کو اس لئے قدر کا نام دیا گیا ہے چونکہ اس رات خداوند متعال مخلوق کی تقدیروں کو معین کرتا ہے یعنی زندگی، موت، رزق،سعادت، بدبختی اور ان جیسے دیگر امور کو شبِ قدر سے لے کر آنے والے سال تک مقدر کر دیا جاتا ہے یہاں پر چند سوال پیدا ہوتے ہیں.
1-سال کے تمام امور کو مقدر کرنا کیا معنیٰ رکھتا ہے؟ کیا خداوند کے علمِ ازلی میں تمام امور لکھ نہیں دئیے گئے کہ اب ضرورت ہو کہ انکو شب قدر میں محقق کیا جائے.
2- انسانوں کا اس رات میں عمل کرنا کیا تاثیر رکھتا ہے؟ اس معاملے میں انسانی زندگی کے آزادانہ کردار کی توجیہ, اس رات سے پہلے اور بعد میں کیسے کی جائے گی؟
3-کیا مقدراتِ الہی جیسا کہ قرآن میں ارشاد ہوتا ہے اولِ خلقت سے پائے جاتے تھے؟
خداوند متعال فرماتا ہے: «خَلَقَ کُلَّ شَیْءٍ فَقَدَّرَہُ تَقْدِیْراً» یعنی خداوند نے تمام چیزوں کو خلق کیا اور پھر ہر چیز کے مقدرات کو لکھ دیا.
«وَ کَانَ أَمْرُ اللَّہِ قَدَراً مَقْدُورا». «کُلُّشَیْءٍ عِنْدَہُ بِمِقْدَارٍ»، بعض احادیث کی بناء پر تمام مقدرات روز قیامت تک اس رات کو لکھ دئیے جاتے ہیں. «أنَّ اللہ تبارک و تعالی قدَّرَ فیھا ما ھو کائن ألی یوم القیامہ».
ان سوالوں کے جوابات میں ہمیں توجہ کرنے کی ضرورت ہے کہ جو مقدرات شب قدر میں مشخص کئے جاتے ہیں انکی دو قسمیں ہیں.
1-وہ واقعات جنکا بشر سے کوئی تعلق نہیں ہے اور بشر کا وجود ان حوادث پر کوئی اثرانداز نہیں ہوتا ہے. جیسا کہ وہ حوادث و واقعات جو فطرت میں پیش آتے ہیں کہ ہمارا ان میں کوئی عمل دخل نہیں ہے.
2-وہ واقعات جنکا براہ راست بشر سے تعلق ہے لیکن ہمارے اختیار میں نہیں ہے. مثلاً موت! کہ انسان اس میں مجبور ہے. وہ امور جن میں انسان کو اختیار حاصل ہے اور وہ اس میں موثر واقع ہو سکتا ہے جیسے ہر انسان کا نصیب و قسمت.
اس قسم کے امور کا، تیسری قسم میں بھی بشر کے اختیارات کا عمل دخل ہوتا ہے. پس انسان کو توجہ کرنی چاہیے کہ اگر کوئی کہے مقدر کی بات ہے تو اسکا یہ مطلب نہیں ہے کہ انسان سے اختیار کو سلب کر لیا گیا ہے اور اسے وظائف انجام دینے پر مجبور کیا جائے. کیونکہ اولاً یہ تقدیریں جو شب قدر میں لکھی جاتی ہیں یہ ان وسائل اور اسباب کی بنا پر ہوتی ہیں جو خداوند متعال نے دنیا میں انسانوں کے کنٹرول میں دے رکھی ہیں اسکے بعد پھر بھی یہ تقدیر قابلِ تغییر و تبدیل ہے. ثانیاً ہم انسانوں کی تقدیریں در اصل ہمارے ایمان کیساتھ مشروط ہیں. وہ ایمان ہی ہے جو یہ کہتا ہے کہ اختیار اور انتخاب انسان کا بنیادی حق ہے پس امور کا مقدر ہونا جبر کی طرح نہیں ہے چونکہ نہ جبر مطلقاً قابلِ قبول ہے اور اختیار مطلقاً بلکہ درمیانی راستہ ہی سیدھا راستہ ہے. جیسا کہ امام صادق علیہ السلام نے فرمایا: «لَا جَبرَ وَلَا تَفْوِیضَ لَکِن أَمْرٌ بَیْنَ اَمْرَیْنِ».قضا و قدرِ الہی کا مطلب انسانوں کو مجبورِ محض بنانا نہیں ہے کہ اگر قدر و قضا کا تقاضا یہ ہے تو پھر انسان کو حتماً اسکے سامنے سر تسلیم خم کرنا چاہیے اور اس میں ذراہ برابر بھی تبدیلی کا امکان نہیں ہونا چاہیے(لیکن اسطرح نہیں ہے) اگر ایسا ہو تو ہم سورہ رعد کی آیت نمبر 11 میں پڑھتے ہیں: «أِنَّ اللَّہَ لا یُغَیِّرُ ما بِقَومٍ حَتَّی یُغَیِّرُوا ما بِأَنفُسِھِم»، اسکا ترجمہ شعر میں عرض کرتے ہیں
خدا نے آج تک اس قوم کی حالت نہیں بدلی
نہ ہو جسکو خیال اپنی حالت کے بدلنے کا.
پس پھر بھی خداوند ہماری طرف نگاہِ کرم فرماتا ہے اور ہمیں اختیار سونپ دئیے ہیں اور ہم ان جیسے امور میں بے اختیار نہیں ہیں اگر ایسا نہ ہو تو پھر گناہ، معصیت، جنت، جہنم کا کیا فلسفہ ہوگا؟ ظلم و عدل کا فلسفہ کیا ہوگا اگر ہم اپنے کاموں میں مجبور ہوں! انسانوں کا شب قدر کی محافل اور عبادتوں اور دعاؤں میں حاضر ہونا انسان کے اختیار و ارادہ کا نمونہ ہیں.
*مشیتِ الہی کے بارے میں سب سے بڑی غلط فہمی*
مشیتِ الہی کے بارے میں سب سے بڑی غلط فہمی یہ ہے کہ کوئی یہ خیال کرے کہ خداوند متعال نے تمام امور کی باگ ڈور اپنے بندوں کے کاندھوں پہ ڈال دی ہے پس نہ کوئی ثواب ہے اور نہ عقاب اور کوئی اخلاق ہے اور نہ کوئی ذمہ داری! اسکے مقابلے میں ایک اور گروہ ہے جو اسکے برعکس سمجھتا ہے وہ کہتے ہیں کہ انسان ایک ایسا موجود ہے جو مجبورِ محض ہے اور اسے ذرہ برابر بھی آزادی و اختیار نہیں دیا گیا اور ساری چیزیں قضا و قدر معین کرتی ہے یعنی خداوند کا امور میں ارادہ کرنا یہ انسان کے ارادے کے برخلاف ہے.
جبکہ شیعہ خیر البریہ کا ان دونوں گروہوں کے برعکس نظریہ ہے شیعیانِ حیدرِ کرار یہ کہتے ہیں کہ امر دو امروں کے درمیان دائر ہے. یعنی نہ جبر و نہ تفویض. خدا کا ارادہ ، انسان کے ارادے کے نہ طول میں ہے اور نہ عرض میں. یعنی خدا کا ارادہ، بشر کے ارادے سے مافوق ہے اور بشر کا ارادہ، خدا کے ارادے سے ہی نکلا ہے. یعنی خدا نے ہی بشر کو یہ ارادہ عطا کیا ہے اور اس سے اختیار کو سلب نہیں کیا ہے.«أِنَّ اللَّہَ لا یُغَیِّرُ ما بِقَوْمٍ حَتَّی یُغَیِّروا ما بِأَنْفُسِھِمْ». «یَمْحُوا اللہُ مَا یَشِاءُ وَ یُثْبِتُ وَ عِنْدَہُ أُمُّ الْکِتابِ». صلوات پڑھیں محمد و آل محمد پر.
*امام سجاد علیہ السلام کی دعا مکارم الاخلاق کے بعض جملات کی شرح*
*متن عربی:«اللَّهُمَّ صَلِّ عَلَى مُحَمَّدٍ وَ آلِهِ، وَ حَلِّنِی بِحِلْیَهِ الصَّالِحِینَ، وَ أَلْبِسْنِی زِینَهَ الْمُتَّقِینَ، فِی بَسْطِ الْعَدْلِ، وَ کَظْمِ الغَیْظِ، وَ إِطْفَاءِ النَّائِرَهِ، وَ ضَمِّ أَهْلِ الْفُرْقَهِ، وَ إِصْلَاحِ ذَاتِ الْبَیْنِ، وَ إِفْشَاءِ الْعَارِفَهِ، وَ سَتْرِ الْعَائِبَهِ، وَ لِینِ الْعَرِیکَهِ، وَ خَفْضِ الْجَنَاحِ، وَ حُسْنِ السِّیرَهِ، وَ سُکُونِ الرِّیحِ، وَ طِیبِ الْمُخَالَقَهِ، وَ السَّبْقِ إِلَى الْفَضِیلَهِ، وَ إِیثَارِ التَّفَضُّلِ، وَ تَرْکِ التَّعْیِیرِ، وَ الْإِفْضَالِ عَلَى غَیْرِ الْمُسْتَحِقِّ، وَ الْقَوْلِ بِالْحَقِّ وَ إِنْ عَزَّ، وَ اسْتِقْلَالِ الْخَیْرِ وَ إِنْ کَثُرَ مِنْ قَوْلِی وَ فِعْلِی، وَ اسْتِکْثَارِ الشَّرِّ وَ إِنْ قَلَّ مِنْ قَوْلِی وَ فِعْلِی، وَ أَکْمِلْ ذَلِکَ لِی بِدَوَامِ الطَّاعَهِ، وَ لُزُومِ الْجَمَاعَهِ، وَ رَفْضِ أَهْلِ الْبِدَعِ، وَ مُسْتَعْمِلِ الرَّأْیِ الْمُخْتَرَعِ»
*ترجمہ*
خدایا محمد و آل محمد علیھم السلام پر رحمت فرما اور مجھے نیک کرداروں کے طریقے سے مزین فرما. اور متقین کی زینت کا لباس عطا فرما کہ میں انصاف کو پھیلاؤں، غصے کو برداشت کروں، آتشِ بغض و عداوت کو ٹھنڈا کروں، اختلاف کرنے والوں کو یکجا کروں، لوگوں کے درمیان معاملات کی اصلاح کروں نیکیوں کو نشر کروں برائیوں پر پردہ ڈالوں مزاج کو نرم رکھوں شانوں کو جھکا دوں.سیرت کو حسین رکھوں. ہوا کو پرسکون بناؤں. اخلاق کو پاکیزہ رکھوں. فضیلتوں کی طرف قدم آگے بڑھاؤں. فضل و کرم کو اختیار کروں نہ کسی کو سرزنش کروں اور نہ کسی غیر مستحق پر مہربانی کروں. صرف حق کہوں چاہے کتنا ہی مشکل ہو. اور قول و فعل میں نیکیوں کو کم سمجھوں چاہے کتنی ہی زیادہ کیوں نہ ہوں اور تمام نیکیوں کو یوں کامل بنا دے کہ ہمیشہ اطاعت کروں، جماعت کیساتھ رہوں، اہل بدعت اور خود ساختہ افکار اختیار کرنے والوں کو چھوڑ دوں.
*صفاتِ متقین و صالحین کی شرح*
یہ سب متقین اور صالحین کی صفات ہیں کہ جنکے بارے میں اشارہ کیا گیا ہے آپ علیہ السلام فرماتے ہیں. اس مجلس میں فقط ایک جملے کی شرح بیان کی جائے گی: «وَ الاَفْضَالِ عَلَی غَیْرِ الْمُسْتَحِقِّ»، یعنی آپ کسی ایسے شخص کا احترام و اکرام کرتے ہیں جو اسکا حقدار نہیں ہے اور جو حقدار ہوگا اسے اپنا حق مل جائے گا لیکن اگر آپ چاہیں کہ ایک ایسے شخص کی عزت و احترام کریں جو اسکا مستحق نہیں ہے اور اسکا کوئی حق آپکی گردن پر نہیں ہے تو یہ نہایت قابلِ ستائش ہے اور یہ متقین و صالحین کی صفات میں سے ہے.
«وَ الْقَولِ بِالْحَقِّ وَ أِنْ عَزَ»، یعنی آپ حق بات کہیں چاہے مدمقابل کتنا ہی عزیز کیوں نہ ہو. حق بات کہو اگرچہ اس میں آپکا نقصان ہو. اور ایسا حق کہنا واقعاً تلخ اور بھاری ہے. لیکن یہی متقین کی صفات ہے کہ وہ حق کہنے سے کبھی بھی دریغ نہیں کرتے.
«وَ اسْتِقْلَالِ الْخَیْرِ» نیکی کو کم اور تھوڑا شمار کریں. یعنی جو اچھا کام انجام دیں اسے کچھ بھی نہ سمجھیں.
«وَ أِنْ کَثُرَ مِنْ قَوْلِیْ وَ فِعْلِی»، جتنی ہی زیادہ نیکیاں و خیرات انجام دی ہوں چاہے قولی ہوں یا زبانی. زبان کیساتھ درس و تدریس کی ہے، امر بالمعروف اور کسی کی رہنمائی کی ہے. یا کوئی نیک کام کیا ہے یعنی اپنے افعال و کردار سے کسی کی مدد کی ہے. پس نیکیاں چاہے قولی ہوں یا فعلی جتنی بھی زیادہ ہوں انکو زیادہ نہیں گننا چاہیے بلکہ کم شمار کرنا چاہیے تاکہ مستقبل میں مزید اچھے کام انجام دے سکے اور زیادہ قولی نیکیاں زبان سے سرزد ہوں.
«وَ اسْتِکْثَارِ الشَّرِّ وَ أِنْ قَلَّ مِنْ قَوْلِیْ وَ فِعْلِیْ»، خیر کے برابر میں شر ہے. تمہیں خیر کو نہیں دیکھنا چاہیے لیکن شر کو حتماً دیکھیں. اگر انسان سے کوئی شر و برائی سرزد ہوتی ہے تو اگرچہ کم ہو تمہیں چاہیے کہ اسے زیادہ شمار کرو.
«وَ أَکْمَلْ ذَلِکَ لِیْ بِدَوَامِ الطَّاعَہِ» خدایا! میں ان تمام صفات کو تجھ سے چاہتا ہوں تاکہ یہ صفات میرے اندر کمال تک پہنچ جائیں اور چاہتا ہوں کہ تیرے فرامین کے سامنے میری اطاعت و فرمانبرداری ثابت اور ہمیشگی ہو ایسا نہ ہو کہ کسی وقت اور زمانے میں تیری اطاعت کروں اور دوسرے زمانے یا وقت میں نافرمانی کروں.
«وَ لُزُوْمِ الْجَمَاعَۃِ»، یعنی اپنے اوپر لازم و واجب کر لوں کہ ہمیشہ جماعتِ مسلیمین کے ساتھ سیر و سلوک کروں. یعنی جماعت کیساتھ رہوں ایسا نہ ہو کہ اپنا دھڑا اور گروہ تیار کر کے ایک نئی راہ پر چل نکلوں.لذا کہتے ہیں کہ وہ لوگ جو تنہائی کی زندگی گزارتے ہیں وہ انحرافی افکار میں گرفتار ہوجاتے ہیں. انسان کو معاشرتی و سماجی ہونا چاہیے. لیکن خیال رہے کہ مومنین کی جماعت میں رہے نہ کہ کفار و اہل گناہ کے گروہ میں. پس امام علیہ السلام نے امت و جماعت کیساتھ رہنے کی تاکید فرمائی ہے.
«وَ رَفْضِ أَھلِ الْبِدَعِ، وَ مُسْتَعْمِلِ الرَّایِ الْمُخْتَرَعِ»، یعنی انسان کو چاہیے کہ بدعت گزاروں اور وہ لوگ جو اپنی طرف سے نظریات گھڑ لیتے ہیں ان کیساتھ نشست و برخاست نہیں رکھنی چاہیے.
*و صلی اللہ علی محمد و آلہ الطاہرین