شرح دعائے افتتاح (حصہ سوم)

شرح دعائے افتتاح (حصہ سوم)

*خطاب: حضرت آیت اللہ کمیلی خراسانی دام ظلہ*
بسم اللہ الرحمن الرحیم و بہ نستعین و صلی اللہ علی محمد و آلہ الطاہرین
*عربی متن: اللَّهُمَّ إِنَّ عَفْوَکَ عَنْ ذَنْبِی وَ تَجَاوُزَکَ عَنْ خَطِیئَتِی وَ صَفْحَکَ عَنْ ظُلْمِی وَ سَتْرَکَ عَلَی قَبِیحِ عَمَلِی وَ حِلْمَکَ عَنْ کَثِیرِ جُرْمِی عِنْدَ مَا کَانَ مِنْ خَطَایَ  وَ عَمْدِی أَطْمَعَنِی فِی أَنْ أَسْأَلَکَ مَا لا أَسْتَوْجِبُهُ مِنْکَ الَّذِی رَزَقْتَنِی مِنْ رَحْمَتِکَ وَ أَرَیْتَنِی مِنْ قُدْرَتِکَ وَ عَرَّفْتَنِی مِنْ إِجَابَتِکَ فَصِرْتُ أَدْعُوکَ آمِنا وَ أَسْأَلُکَ مُسْتَأْنِسا لا خَائِفا وَ لا وَجِلا مُدِلا عَلَیْکَ فِیمَا قَصَدْتُ فِیهِإِلَیْکَ فَإِنْ أَبْطَأَ عَنِّیعَتَبْتُ بِجَهْلِی عَلَیْکَ وَ لَعَلَّ الَّذِی أَبْطَأَ عَنِّی هُوَ خَیْرٌ لِی لِعِلْمِکَ بِعَاقِبَهِ الْأُمُورِ*

*مقعن بن جبیر کی داستان*

دعائے افتتاح کی شرح بیان کرنے سے پہلے آپکی توجہ دو داستانوں کی طرف مبذول کرانا چاہتا ہوں. پہلی داستان، مقعن بن جبیر کی ہے. اس داستان کو جنگ خندق کی تاریخ میں ذکر کیا گیا ہے اور اسی طرح مفسرین نے اس داستان کو اس آیت «اعوذ باللہ من الشیطان الرجیم. وَ کُلُوْا وَاشْرَبُوا حَتَّی یَتَبِیَّنَ لَکُمُ الْخَیْطُ الأَبْیَضُ مِنَ الْخَیْطِ الأَسْوَدِ» کے ذیل میں بیان فرمایا ہے جیسا کہ فقہ کی کتابوں میں بیان ہوا ہے کہ صبح کی دو قسمیں ہیں 1-صبحِ کاذب 2-صبحِ صادق
اہل سنت اور مکتب تشیع کے درمیان فرق یہی ہے کہ وہ دو بار اذان دیتے ہیں ایک صبحِ صادق کے وقت اور دوسری صبح کاذب کے وقت. صبحِ کاذب کے بارے میں یہ ہے کہ اگر آپ کسی صحرا میں کھڑے ہوں اور مشرق کی طرف آسمان کی طرف نگاہ کریں تو آپکو پہلی نگاہ میں ایک ہلکی سے سفیدی نظر آئے گی پھر اسکے نزدیک حقیقی سفیدی نظر آنے لگے گی؛ یعنی جب صبح کی پَو پھوٹتی ہے تو پہلے ایک وھمی حالت نمودار ہوتی ہے ایسے کہ انسان تصور کرتا ہے کہ صبح صادق ہو چکی ہے. درحالیکہ یہ ایک وھمی اشارہ ہوتا ہے پس سفیدی کو مستقر ہونا اور ثابت ہونا چاہیے؛ لذا صبح صادق کچھ منٹ گزرنے کے بعد اس وقت محقق ہوگی جب جب سفیدی، سیاہی سے الگ ہو جائے. خیط کا معنی نخ و دھاگے کے ہیں. خیط ابیض یعنی تاریکی میں، ایک سفید دھاگے کی مانند روشنی ، سیاہ دھاگوں سے جدا ہوتی ہے جسکا مطلب ہے رات کے بعد دن طلوع ہونے والا ہے اور یہی سفیدی ایک ہی دفعہ نمایاں ہوتی ہے اور دن ہوجاتا ہے. «یُوْلِجُ الَّیْلَ فی النَّھَارِ و یُوْلِجُ النَّھَارَ فِی الَّیْلِ و یُخْرِجُ الْحَیَّ مِنَ الْمَیِّتِ وَ تُخْرِجُ المَیِّتَ مِنَ الْحَیِّ» یہ ایک الھی معجزہ ہے کہ رات چلی جاتی ہے اور دن نمایاں ہوتا ہے. یہ خدا کی نشانیاں ہیں جنکی طرف توجہ کریں. صدرِ اسلام میں اگر کوئی جلدی سو جاتا، تو اسکے لئے کھانا پینا حرام ہو جاتا. اگر وہ سحری کرنا چاہتا تو اسے سحر تک جاگنا پڑتا تھا. جیسا کہ پہلے(حصہ دو میں) بیان ہو چکا ہے. اسکا ایک فائدہ شب بیداری تھی اسکے لئے انسان مجبور تھا کہ صبح تک بیدار رہے. بالخصوص اگر شب بیداری کرے تو مغرب کے وقت افطار کہاں اور سحر کی غذا کہاں! عزیز بھائیوں اور بہنوں ، اس آیت«کلوا واشربوا» میں خداوند متعال کے لطف و کرم کی انتہا ملاحظہ کریں! اگر یہ حکم منسوخ نہ ہوتا اور یونہی جاری رہتا تو آج ہماری کیا حالت ہوتی! لذا چونکہ اس حکم میں سختی اور مشقت تھی تو آپ صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم نے بارگاہِ خداوند میں دعا کی اور اس سنگین حکم کو اٹھا لیا گیا. اور یہ آیت «کلوا و اشربوا» نازل ہوئی کہ کھاؤ پیئو، صبح کی اذان سے پہلے تک، بہت زیادہ وقت ہے. کہا جاتا ہے اس آیت کا شأن نزول معقن بن زبیر صحابی رسول صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم  کے متعلق ہے آپ روزہ کی حالت کیساتھ خندق کھودنے والوں کیساتھ شریک تھے. غزوہ خندق میں مشہور و معروف یہی ہے کہ یہ شخص شہر کے اطراف میں خندق کھودنے اور اس میں آگ جلانے پر مأمور تھا تاکہ دشمن شہر میں داخل نہ ہوسکے. یہ ماہِ رمضان کا واقعہ ہے. اور مقعن روزہ دار تھا. گھر لوٹنے کے بعد بیوی سے افطاری تیار کرنے کا کہتا ہے. اسکی بیوی کچن میں افطاری تیار کرنے میں مصروف ہوجاتی ہے. جب افطاری کا سامان لے کر مقعن کے پاس پہنچتی ہے تو دیکھتی ہے کہ اسکا شوہر تھکاوٹ کی وجہ نیند کی آغوش میں چلا گیا ہے. جب مقعن بیدار ہوتا ہے تو دیکھتا ہے کہ وقت تمام ہو چکا ہے اور اب وہ غذا نہیں کھا سکتا ہے. دوسرے دن چونکہ روزہ واجب تھا لذا روزہ رکھتا ہے اور اسی روزہ کی حالت میں لشکرِ اسلام کیساتھ خندق کھودنے میں مشغول ہو جاتا ہے. بیلچہ چلاتا ہے اور خندق کھودتا ہے ہوا ظاہراً گرم تھی مخصوصاً حجاز و سعودی عرب کی گرمی! قصہ مختصر مقعن پر نقاہت و ضعف طاری ہوتا ہے اور زمین پر گر پڑتا ہے. پیامبر اکرم صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم کو خبر دی گئی کہ یا رسول اللہ، مقعن کی خبر لیجئیے کہ وہ شدت ضعف کی وجہ سے زمین پر غشی کی حالت میں پڑا ہوا ہے، آقا علیہ السلام مقعن کے سرہانے پہنچتے ہیں اور اسکا حال دریافت فرماتے ہیں. اصحاب بتاتے ہیں کہ وہ کل روزے سے تھا جب گھر افطار کے لئے پہنچا تو اسے نیند آ گئی اور وہ کوئی چیز نہیں کھا سکا اب دوسرے دن، اسی روزے کی خشک زبان سے جوکہ کل تھی اور کچھ کھایا پیا نہیں تھا آیا ہے لذا ضعف و نقاہت کی شدت کی وجہ سے بیہوش ہوگیا ہے. پھر پانی لایا گیا اور اس پر ڈالا گیا اور اسے ہوش میں لایا گیا. وہیں پر پیامبر اکرم صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم نے دستِ مبارک دعا کے لئے آسمان کی طرف بلند کئے اور فرمایا : اے خدا! میری امت پر رحم فرما اور اس سنگین حکم کو اٹھا لے. جبرائیل نازل ہوئے اور یہ آیت «وَ کُلُوْا وَ اشْرَبُوا حَتَّی یَتَبَیَّنَ لَکُمُ الْخَیْطُ الأَبْیَضُ مِنَ الْخَیْطِ الأَسْوَدِ» لائے. یہ مقعن بن جبیر کی داستان تھی.

*سید مہدی بحر العلوم کے مکاشفات*

دوسری داستان نیز ماہِ مبارک رمضان اور حجتِ بزرگ سید مہدی بحر العلوم(رضوان اللہ علیہ)کی کرامات میں سے ہے. کہ رسالہ سیر و سلوک کو آپکی طرف نسبت دی گئی ہے اور ہم دوستان کے تمرکز اور وسواس سے بچاؤ کے ان دستورات سے استفادہ کیا ہے 
مفتاح السعادہ کے صفحہ نمبر 494 پر سیدِ بزرگ، سید بحر العلوم ایک حکایت نقل کرتے ہیں. نقل ہوا ہے کہ آپ نے اپنی بعض تالیفات میں اس واقعہ کو اپنے دستِ مبارک سے لکھا ہے کہ آپ نے ماہِ رمضان کی تئیس شب کو ایک ہزار مرتبہ سورہ قدر کی تلاوت فرمائی تھی. یہ ایک ہزار مرتبہ پڑھنا فقط شب قدر سے مخصوص نہیں ہے بلکہ ماہِ رمضان کی پہلی رات سے شروع ہوتی ہے اور شب قدر اور ماہِ رمضان کے آخر میں ختم ہو جاتی ہے. ہم نے ماہِ رمضان کے مراقبات میں، سورہ قدر کی تلاوت کو اس ماہ کے اذکار و اوراد میں شمار کیا ہے اور کہا ہے کہ سالک کو چاہیے کہ وہ ایک ہزار میں سے جتنی مقدار تلاوت کر سکتا ہے کرے کم از کم سو مرتبہ ضرور پڑھے. آپ اپنی روز وشب کی واجب و نافلہ نمازوں میں بھی اسکی تلاوت کر سکتے ہیں واجب نمازوں میں اس طرح کہ صبح کی دو رکعت میں، اسی طرح ظھر و عصر کی پہلی دو رکعتوں میں، مغرب و عشاء کی پہلی دو رکعتوں میں، یہ سب ملا کر دس ہو گئیں..اور اگر مستحبی نمازوں اور نماز تہجد میں اور نافلہ میں اسکی تلاوت کریں تو دیکھیں آپ کتنا پڑھ لیں گے!  بعض لوگوں کے ہاتھوں میں تسبیح ہوتی ہے وہ جہاں بھی جاتے ہیں سورہ قدر کی تلاوت کرتے ہیں. سید بحر العلوم اپنی اس عظمت و جلالت کیساتھ فرماتے ہیں کہ میں نے سورہ قدر کو ہزار مرتبہ پڑھا اور اس مبارک سورہ کی تلاوت کے بعد حرم مطھر میں زیارت سے مشرف ہوا. یہاں پر یہ ذکر نہیں ہوا کہ کس حرم میں تشریف لے گئے لیکن چونکہ ظاہراً آپکا وطن نجف تھا اور حوزہ علمیہ کے استاد تھے لذا حرم سے مراد امیر المومنین علی علیہ السلام کا حرم ہے آپ فرماتے ہیں کہ جب میں نے زیارت پڑھنے کے بعد نمازِ شب پڑھنا شروع کی تو سجدہ کی حالت میں بہت زیادہ گریہ کیا، اسی سجدے کی حالت میں یا خواب و بیداری کے درمیان مکاشفہ پیش آیا. آپ، امام زین العابدین علیہ السلام کو دیکھتے ہیں کہ آپ اپنے جد امیر المومنین علیہ السلام کی ضریح کے سامنے ٹیڑھی گردن کیساتھ کھڑے ہیں. اور تضرع و زاری میں مشغول ہیں اور شب قدر میں اپنے رب کے حضور مناجات میں مشغول ہیں. امام زین العابدین علیہ السلام اپنے جد کے حرم نجف اشرف میں خدا سے مناجات میں فرماتے ہیں. «الہی: اس شب قدر کے حق کا واسطہ امیر المومنین علیہ السلام کے شیعوں اور حسین علیہ السلام پر گریہ کرنے والوں پر رحمت نازل فرما اور انکی مغفرت فرما»
سید بحر العلوم فرماتے ہیں میں نے آپکی مناجات کو دل و جان سے سنا اور دیکھا کہ آپ ایک ذکر کو بار بار تکرار فرما رہے ہیں  اور وہ ذکرِ توحیدی«لا الہ الا انت» تھا  یہ ذکر شریف«لا الہ الا انت» اس ماہ کے مراقبات میں سے ہے اور ہمارے نزدیک 500 بار پڑھا جائے لیکن روایات میں «کثیر» کی تعبیر استعمال ہوئی ہے اس لئے اسے جتنا زیادہ ممکن ہو پڑھا جائے. ہر رات سورہ قدر کی طرح اس ذکر کا بھی ہزار مرتبہ پڑھنا روایات میں ذکر ہوا ہے. لیکن ہم نے کم از کم پانچ سو مرتبہ پڑھنے کی سفارش کی ہے. ہم سید بحر العلوم کے بارے میں گفتگو کر رہے تھے کہ آپ سجدہ کی حالت میں مشاہدہ کرتے ہیں کہ امام زین العابدین علیہ السلام اپنے جد امیر المومنین علیہ السلام کی ضریح کے پاس کھڑے ہیں اور خدا سے مناجات فرما رہے ہیں اور ذکرِ«لا الہ الا انت» کو بار بار تکرار فرما رہے ہیں سید فرماتے ہیں کہ ایک دوسری چیز جسکا میں نے مشاہدہ کیا وہ یہ ہے کہ آپ جیسے یہ ذکر پڑھتے تھے تو جو چیز بھی رواق اور ضریح مطھر میں تھی وہ سب چیزیں آپکے ساتھ ذکر  پڑھ رہی تھیں؛ یعنی حرم کی در و دیوار اور خود حرم، سب آپکے ساتھ مناجات میں شریک تھے میں نے امام علیہ السلام سے استفسار کیا کہ جمادات(پتھر) کیسے آپکے ساتھ ذکر ادا کر رہے ہیں؟ تو آپ علیہ السلام نے میری جانب لطف و کرم کیا اور فرمایا کہ خداوند متعال نے توحید، نبوت اور ہماری ولایت کو تمام ممکنات کے سامنے پیش کیا. یہ تمام چیزیں ہمارے مقام کو پہچانتی ہیں اور ہماری مطیع و فرمانبردار ہیں اور ان سب پر ہماری اطاعت لازم قرار دے دی گئی ہے تمام جمادات تسبیح و تہلیل میں مصروف ہیں لیکن اکثر لوگ انکی تسبیح کو نہیں سمجھتے. پھر آپ علیہ السلام نے فرمایا: اے سید! کوئی بھی نطفہ امام علیہ السلام کی اجازت کے بغیر منعقد نہیں ہوتا اور کوئی پتہ بھی اذنِ امام کے بغیر درخت سے نہیں گرتا. اے سید! ہم فیضِ الہی کا باب ہیں. ہم اسکے فیوض کی چابیاں ہیں. ہم جنت کے تقسیم کرنے والے ہیں. مخلوق کے امور ہماری اجازت سے انجام پاتے ہیں ہماری مشیت ، مشیتِ الہی کے تابع ہے.

*اہل بیت علیھم السلام کی محبت و ولایت رکھنے کا ثواب*

سید فرماتے ہیں؛ میں نے سوال کیا مولا آپکی محبت و ولایت کا کتنا اجر و ثواب ہے؟ آپ علیہ السلام نے فرمایا: جو شخص بھی محبتِ اہل بیت میں مرا وہ ہمارے ساتھ محشور ہوگا. میں نے دوبارہ سوال کیا، مولا امام حسین علیہ السلام پر گریہ کرنے والوں کا کتنا اجر و ثواب ہے؟ آپ نے فرمایا گریہ کرنے والے شھدائے کربلا کے ثواب میں انکے ساتھ شریک ہیں اور روز قیامت انہی کے ساتھ محشور ہونگے اور جو کوئی بھی یہ کہے«یَا لَیْتَنِی کُنْتُ مَعَکُمْ فَأَفُوْزَ فَوْزًا عَظِیْماً» اسے ایک حج و عمرے کا ثواب عطا کیا جائے گا. پھر فرمایا: جو کوئی بھی آپ علیہ السلام پر صرف اتنا گریہ کرے کہ آنسو اسکے رخسار پر جاری ہو جائیں تو خدا اسکے اگلے پچھلے گناہ معاف فرما دے گا اور اس پر آتشِ جہنم کو حرام قرار دے گا. پھر فرمایا: میں اسکی بہشت کا ضامن ہوں.

*اہل بیت علیھم السلام کی زیارت کا ثواب*

میں نے عرض کیا اس شخص کا کتنا اجر ہے جو آپ میں سے کسی ایک کی زیارت کرے؟  آپ علیہ السلام نے  فرمایا اسکا ثواب یہ ہے کہ ہم قبر کی پہلی رات اسکی زیارت کو آئیں گے اور اسے تمام مصائب سے نجات دینگے اور وہ روزِ قیامت ہمارے ساتھ ہوگا.

*اقسامِ ظلم*

«اَللَّھُمَّ أِنَّ عَفْوَکَ عَنْ ذَنْبِیْ» اے خدا ہم گناہ کرتے ہیں اور تو بخش دیتا ہے. «وَ تَجَاوُزَکَ عَنْ خَطِیئَتِی» ہم خطا کرتے ہیں اور تو معاف فرماتا ہے. «وَ صَفْحَکَ عَنْ ظُلْمِیْ» ہم ظلم کرتے ہیں اور تو درگزر فرماتا ہے. یہ ظلم وہی بے انصافی اور عدالتی میزان سے خارج ہونا ہے. ایک نفس کے اوپر ظلم و ستم کرنا ہے، ایک لوگوں کے اوپر ظلم کرنا ہے، اور ایک ظلم حدودِ الھی سے تجاوز کرنا ہے. البتہ یہ بات واضح و روشن ہے کہ خداوند متعال کبھی بھی ظالم اور مظلوم واقع نہیں ہوتا ہے. اگر ساری دنیا کافر ہو جائے اور سب ظلم و جنایت کرنے لگ جائیں اسکی عظمت و کبریائی میں ذرہ برابر بھی کمی نہیں ہوگی.عدالتِ الہی کے دیوان میں اگر ہم ظلم و بے انصافی کریں تو اگر خدا چاہے تو محکمہ عدل میں ہمیں سزا دے سکتا ہے. لیکن ہم دعا میں پڑھتے ہیں کہ تو بخشنے والا ہے اور بعض اوقات بہت سے مظالم سے بھی درگزر سے کام لیتا ہے.

*دنیا میں اللہ تعالیٰ کے ستار العیوب ہونے کی حاکمیت*

«وَ سَتْرَکَ عَلیٰ قَبِیْحِ عَمَلِیْ» اے خدا تو ستار العیوب ہے اور ہمارے برے اور زشت اعمال کی پردہ پوشی فرماتا ہے. *اگر خدا ستار العیوب نہ ہوتا تو ہماری کیا حالت ہوتی؟* کہا جاتا ہے کہ بعض سابقہ امتیں رات کو گناہ کرتی تو جب دن کو باہر نکلتے تو انکی پیشانی پر وہ گناہ لکھا ہوتا تھا. ابھی آپ جائیں اور اسکی سند پیدا کریں چونکہ میں نے اس روایت کو کافی عرصہ پہلے دیکھا ہے. اگر یہی حال امتِ مرحومہ کیساتھ ہوتا تو ہماری کیا حالت و کیفیت ہوتی؟ یہاں پر اسکی ستاریت کی حاکمیت ہے لیکن کیا خداوند بزرگ بروزِ محشر بھی ایسے ہی ستار العیوب ہوگا ؟ یَوْمَ تُبْلَی السَّرائِرْ؛ وہاں ہر چیز واضح و آشکار ہو جائے گی. ہمیں ایسے شایستہ اعمال بجا لانے چاہیے کہ وہاں ذلیل و خوار نہ ہوں.

*گناہِ عمد و سہو*

«وَ حِلْمَکَ عَنْ کَثِیْرِ جُرْمِی»، اے خدا آپ ہمارے بہت سے جرم اور خطاؤں سے درگزر کرتا ہے. «عِنْدَ مَا کَانَ مِنْ خَطَایَ وَ عَمْدِیْ»، یعنی ایک دفعہ ایک انسان نےایک گناہ سہو کے لئے ابھی عملی قدم نہیں اٹھایا ہے لیکن ابھی ایسا ہوا ہے کہ وہ اس میں مبتلا ہو گیا ہے یہ گناہ کی ایک قسم ہے. ایک دوسری قسم گناہِ عمدی ہے یعنی جان بوجھ کر گناہ انجام دیتا ہے مثلاً خود کو مَست کر لیتا ہے، یا نشہ آور اشیاء کھاتا ہے، شیشہ، افیون اور اسی طرح کی دوسری اشیاء کا استعمال کرتا ہے اور یہ سب فقہ کی نگاہ میں شراب کی طرح ہیں. اب ممکن ہے اسکی سزا اسی تازیانے نہ ہو لیکن یہ بھی ایک قسم کا گناہ اور جرم ہے. 
«لَا ضَرَرَ وَ لَا ضِرارَ فِی الاِسْلام» انسان کو چاہیے کہ وہ خود کو ضرر و تکلیف نہ پہنچائے. ان گناہوں کا تعلق عمدی گناہوں سے ہے اور ایک شخص جان بوجھ کر یہ کام انجام دیتا ہے. لیکن ہم اس دعا میں پڑھتے ہیں اے خدا! تو عمدی و سہوی گناہوں سے درگزر فرماتا ہے اور چشم پوشی کرتا ہے اور آپ کا حلیم و ستار العیوب ہونا اس بات کا سبب بنا ہے کہ«أَطْمَعْنِی فِی أَنْ أَسأَلَکَ مَا لا أَسْتَوجِبُہُ مِنْکَ». میں تجھ سے اس چیز کی طمع کروں جسکے سوال کا مستحق نہیں تھا؛ یعنی میں اتنا گناہگار، خطاکار اور میں نے ایسے برے و قبیح اعمال سر انجام دئیے ہیں کہ میرا حق بنتا ہے کہ میں جہنم کی تہ میں ڈالا جاؤں اور خداوند دنیا و آخرت میں مجھے سزا دے. لیکن وہ لطف فرماتا ہے اور ایسا نہیں کرتا اور یہی چیز باعث بنتی ہے کہ میں اپنے ہاتھ کو پھیلاؤں اور کہوں: خدایا مجھے بخش دو!

*خداوند کا رحمان و رحیم ہونا*

«الَّذِی رَزَقَنِیْ مِنْ رَحْمَتِکَ وَ أَرَیْتَنِی مِنْ قُدْرَتِکَ وَ عَرَّفْتَنِی مِنْ أِجَابَتِکَ»، تو ایسا خدا ہے جسکی رحمت، مومن و کافر اور سب کے شاملِ حال ہے اسکی صفت رحمان ایسی ہے یعنی وہ سب کے لئے رحمان ہے. لیکن اسکا رحیم ہونا یہ فقط مومنین اور آخرت کیساتھ مختص ہے. لیکن ہم اس رحمت کو دنیا میں اپنی آنکھوں سے دیکھتے ہیں. «وَ أَرَیْتَنِی مِنْ قُدْرَتِک»، تو نے ہمیں قدرت و توانائی دی ہے اور یہ سب آپکی جانب سے ہے. اسی طرح تو نے مجھے باور کرایا اور دکھایا ہے کہ تو نے کہاں کہاں میری فریاد رسی کی ہے اور کہاں دعا قبول فرمائی ہے. جب میں نے «یا اللہ» کہا تو نے جواب دیا. ایک اور جگہ میں نے عرض کیا تھا ہم خدا کو ایک مرتبہ «لبیک یا اللہ» کہتے ہیں تو وہ بھی جواب میں ایک مرتبہ «لبیک یا عبدی» فرماتا ہے. اے میرے بندے بولو کیا چاہتے ہو سوال کرو. «فَصِرْتُ أَدْعُوکَ آمِنا وَ أَسْأَلُکَ مُسْتَأْنِسا لَا خَائِفا و لا وَجِلا مُدلا عَلَیکَ فِیْمَا قَصَدْتُ فِیہِ أِلَیْکَ». میں کتنا تجھ سے نزدیک ہو چکا ہوں اور اپنے بارے میں کتنی تیری مہربانی، عفو و درگزر اور بخشش کو دیکھا ہے. جبکہ میں تو ایک لمحہ کے لئے بھی اس دنیا میں رہنے کے لائق نہیں ہوں. اتنے جرم اور جنایت کے بعد مجھے زندہ بھی نہیں رہنا چاہیے. اور نہ ہی اس دنیا میں سانس لینا چاہیے. آپ دیکھتے ہیں کہ جب کوئی کسی جرم و جنایت کا مرتکب ہوتا ہے تو اسے پھانسی پہ لٹکا دیتے ہیں. اتنی زیادہ نافرمانیوں کے بعد خدا ہمیں کتنی بار پھانسی پہ لٹکائے. میں زندہ رہنے کا حق نہیں رکھتا لیکن میں جانتا ہوں کہ تو اپنے حق سے گزر گیا ہے؛ اور کتنا مجھ پر لطف و کرم کیا ہے. جب تیری مہربانیوں، رحمت اور عنایات کو دیکھتا ہوں تو تجھ سے نزدیک ہو جاتا ہوں. «أَدْعُوکَ آمنا» اس وقت امن و امان کی جگہ میں آ جاتا ہوں. جب تجھ سے مناجات کرنا چاہتا ہوں تو ایک ایسے دل سے جو عفو و درگزر اور اطمینان سے بھرا ہوا ہے اور یہ کام اُنس اور مناجات کی شیرینی کے ساتھ انجام دیتا ہوں.
اس گفتگو کی چاشنی کو میں چکھتا ہوں. 
«وَ أَسأَلُکَ مُسْتَأْنِسا»، میں محبت اور الفت کیساتھ تجھ سے گفتگو کرتا ہوں اور تو میرا انیس بن جاتا ہے اور مجھے اپنے امن و امان کی آغوش میں لے لیتے ہے. «لا خَائِفا ولا وَجِلا»، وہاں خوف و ہراس کا تصور بھی نہیں ہوتا. وَجِل یعنی لرزنا. یعنی وہاں بدن میں لرزش آ جائے…ایسامحال ہے!

*دلال کا مفہوم*

«مُدِلا عَلَیکَ» اس سے بڑھ کر آپ جانتے ہیں کہ دَلال کیا ہے؟ شیر خوار بچے جب اپنی ماں کی آغوش میں سوتے ہیں تو انکا سر اور چہرہ کی کیا کیفیت ہوتی ہے اور انکی والدہ انہیں کیسے ناز و پیار کرتی ہے. خدایا تو نے اپنا نوازش کا ہاتھ میرے سر پر پھیرا ہے اور مجھے اپنی نوازش کا حق دار قرار دیا ہے. یہ کیسا احساس ہے! بعض اوقات انسان معاملات کو خراب کر دیتا ہے اور بعض اوقات خائف ہوتا ہے.اس جملے کا تعلق خراباتی امور سے ہے یعنی کہنا چاہتا ہے کہ میں انتہائی امن و امان کی حالت میں تجھ سے مانوس ہو چکا ہوں اور محسوس کر رہا ہوں کہ تو مجھے نوازش کر رہا ہے یعنی میں گہوارہ میں سو رہا ہوں اور تو مجھے نوازش کر رہا ہے اور میں تجھ پہ ناز کر رہا ہوں. تجھے واقعاً ناز کرنا چاہیے! «مُدِلا عَلَیکَ» میں ناز کر رہا ہوں. «فِیمَا قَصَدْتُ فِیْہِ أِلَیکَ» ایسی حالت کیساتھ میں تیرے محضر میں آیا ہوں. یہ امید کی ایک حیرت انگیز حالت ہے.
البتہ بعض عرفاء نے کہا ہے عارف آخری حالت میں رجاء و امید کے نزدیک ہو جاتا ہے اسی حوالے سے بعض روایات بھی ذکر ہوئی ہیں. ایک دفعہ میں نے ایک تحقیق کی تھی«مومن کو خوف و رجاء کے درمیان رہنا چاہیے» لیکن خوف و رجاء کی اس مقدار میں انسان وہاں تک پہنچتا ہے جیسا آج رات ہم نے بیان کیا ہے. یعنی رجاء کی ایک حیرت انگیز حالت تک جا پہنچتا ہے.

*استجابت دعا میں تاخیر کا سبب*

«فَأِنْ أَبْطَأَ عَنِّیْ عَتَبْتُ بِجَھْلِیْ عَلَیْکَ وَ لَعَلَّ الَّذِی أَبْطَأَ عَنِّیْ ھُوَ خَیْرٌ لِیْ لِعِلْمِکَ بِعَاقِبَۃِ الأُمُوْرِ»، بعض لوگ کہتے ہیں کہ ہم نے خانہ خدا کو بہت کھٹکھٹایا ادھر اُدھر گئے.توسل کیا، مریض کو مشہد لے گئے اور کہاں تک لے گئے پس ہمارے اوپر عنایت کیوں نہیں ہوتی؟ فرماتا ہے، «فَأِن أَبْطَأَ عَنِّی» خدایا جو چیزیں میں نے تجھ سے طلب کی ہیں تو نے اگر دینے میں دیر کر دی تو کیا کروں؟ «عَتَبْتُ بِجَھْلِیْ عَلَیْکَ»، میں گریہ و زاری کروں گا لیکن میرا یہ گریہ و زاری و عتاب جہالت کی وجہ سے ہے اور مجھے یہ کام نہیں کرنا چاہیے کیوں؟ جب تو دانا خدا ہے اور میری پہلی اور آخری مصلحت کو جانتا ہے اور میری پسندیدہ چیزوں سے نیز آگاہ ہے تو میرے لئے تجھ سے بڑھ کر مہربان ترین دوست اور کون ہوگا؟ یا مجھے دعا کرنا ترک کر  دینا چاہیے اور دیکھنا چاہیے کہ خدا آج دے گا! یا نہیں دے گا! ایک سال بعد یا دو سال بعد یا بعینہ اسی حالت میں مر جاؤں گا پس میں کیا کہوں. باوجود اسکے کہ خدا فرماتا ہے: «أَدْعُوْکَ آمِنا، مُسْتَأْنِسا وَ مُدِلا عَلَیکَ»، عزیز من ! جب تمہاری یہ حالت ہے تو کیوں گریہ و زاری کرتے ہو؟ لیکن«خُلق الانسان ضعیفا»، آخر بے چارہ انسان ہوا نا! «فَأِنْ أَبْطَأَ عَنِّیْ» پس اے خدا جو چیز میں نے تجھ سے طلب کی تھی وہ تو نے دیر سے مجھے عطا کی ہے تو فوراً گریہ و زاری و عتاب شروع کر دیتا ہے کہ یہ کیسا خدا ہے؟ کیوں نہیں دیتا؟ کیوں انجام نہیں دیتا؟ اور کیوں؟ «وَ لَعَلَّ الَّذِی أَبْطَأَ عَنِّیْ» یہ بات  مجھے خود سے کہنی چاہیے کہ وہ حاجت جو خدا کی جانب سے قبول ہونی میں دیر ہوئی ہے ممکن ہے اس میں میرے لئے خیر ہو، میں تو خیر و شر کو اچھے طریقے سے نہیں سمجھ سکتا لیکن خداوند متعال تو جانتا ہے. پس یہ حاجت جو قبول نہیں ہو رہی یا اس سال مجھے نہ ملے یا اگلے دس سال یا بیس سال بعد ملے یا شاید اصلاً زندگی میں مجھے نہ ملے یہ سب چیزیں آزمائش ہیں! شاید اس سے ایک درجہ بلند ہو! شاید گناہوں کی بخشش کا ذریعہ ہو! بہرحال کوئی نہ کوئی سبب و دلیل پائی جاتی ہے میں کیوں خدا کے کام میں دخالت کروں؟ بلکہ مجھے یہ احتمال دینا چاہیے کہ کئی دفعہ یہی تاخیر میرے حق میں خیر ثابت ہوئی ہے! کیوں؟ اس نکتے کی طرف توجہ کریں دلیل دے رہا ہے. دلیل یہ ہے کہ «لِعِلْمِکَ بِعَاقِبَۃِ الأُمُورِ» تو مجھ ضعیف بندے سے زیادہ دانا ہے. کس چیز میں دانا ہے؟ تمام امور کے اختتام سے. ہمارے امورِ زندگی کیسے چلیں اور کیسے اختتام پذیر ہوں. تو خداوند مدبر و خالق و رازق بہتر جانتے ہیں. پس مجھے اپنے امور تیرے حوالے کر دینے چاہیے. یہاں پر اور بھی مطالب ہیں لیکن انہیں آنے والی شب پر چھوڑتے ہیں. ہم خدا سے ایسی حاجت چاہیں جو ممکن ہو دنیوی ہو یا اخروی ہو. اسی سیر و سلوک کی راہ میں بعض لوگ جلدی کرتے ہیں اور فریادیں بلند کرتے ہیں گریہ و زاری کرتے ہیں کہ خداوندا! مجھے حتمی یہ چیز عطا کرو! خدانخواستہ اگر خدا نے عنایت کر دی لیکن تمہارے اندر ظرفیت نہ ہوئی تو کیا کرو گے؟ جیسے بعض علم اخلاق و عرفان کے منحرف اساتذہ سامنے آ رہے ہیں ہمارے پاس وقت نہیں ہے کہ انکے بارے توضیح دیں.کچھ عرصہ پہلے مشہد میں ایک منحرف استاد ظاہر ہوا ہے اور دعویٰ کیا ہے کہ اسے مکاشفات حاصل ہوئے ہیں لیکن ظرفیت نہیں رکھتا ہے. اب یہ کونسی حکمت ہے کہ بعض اوقات انسان خدا سے بعض حاجات چاہتا ہے چاہے وہ معنوی ہوں یا غیر معنوی،لیکن عطا نہیں ہوتی ہیں تو اس سلسلے میں ہمیں صبر کرنا چاہیے تاکہ اس کا مناسب وقت آن پہنچے. «الامور مرھونہ باوقاتھا». جیسے ایک پودا لگایا جاتا ہے تو اسکے بعد انتظار کیا جاتا ہے تاکہ پھل دے! خدا کا راستہ بھی ایسے ہی طے ہوتا ہے. مناسب وقت ہونا چاہیے! کھانا پک جائے تاکہ کھانے کے قابل ہو سکے. بعض لوگ ہمیشہ جلدی کرتے ہیں اور پھر منحرف استاد کے دام میں پھنس جاتے ہیں. چونکہ اس منحرف استاد کے پاس کچھ چیزیں ہیں جو وہ دیتا ہے! اسکا شیاطین اور غیبی مخلوق سے رابطہ ہے اس لئے بعض چیزیں و عملیات دیتا ہے اور وہ بھی اس شیطانی استاد سے دھوکہ کھاتے ہیں. لیکن ہمارے پاس یہ چیزیں نہیں ہیں لذا ہمارے پاس نہیں آتے ہیں. البتہ بعض لوگ جو ان منحرف استاد کے رہتے تھے پھر ہمارے پاس آئے ہیں یہ قصہ طولانی ہے ان شاء اللہ بعد میں بیان کیا جائے گا.
*و صلی اللہ علی محمد و آلہ الطاہرین*
KOMEILY_FATEMIYEH_1441

فهرست مطالب

اشتراک گذاری در facebook
اشتراک گذاری در twitter
اشتراک گذاری در google
اشتراک گذاری در linkedin
اشتراک گذاری در digg
اشتراک گذاری در whatsapp
اشتراک گذاری در email
اشتراک گذاری در print
اشتراک گذاری در telegram