شرح دعائے افتتاح (حصہ دوم)

شرح دعائے افتتاح (حصہ دوم)

*خطاب:حضرت آیت اللہ کمیلی خراسانی سلمہ اللہ*
*عربی متن*
الْحَمْدُ لِلَّهِ بِجَمِیعِ مَحَامِدِهِ کُلِّهَا عَلَی جَمِیعِ نِعَمِهِ کُلِّهَا الْحَمْدُ لِلَّهِ الَّذِی لا مُضَادَّ لَهُ فِی مُلْکِهِ وَ لا مُنَازِعَ لَهُ فِی أَمْرِهِ الْحَمْدُ لِلَّهِ الَّذِی لا شَرِیکَ لَهُ فِی خَلْقِهِ وَ لا شَبِیهَ لَهُ فِی عَظَمَتِهِ الْحَمْدُ لِلَّهِ الْفَاشِی فِی الْخَلْقِ أَمْرُهُ وَ حَمْدُهُ الظَّاهِرِ بِالْکَرَمِ مَجْدُهُ الْبَاسِطِ بِالْجُودِ یَدَهُ الَّذِی لا تَنْقُصُ خَزَائِنُهُ وَ لا تَزِیدُهُ کَثْرَةُ الْعَطَاءِ إِلا جُودا وَ کَرَما إِنَّهُ هُوَ الْعَزِیزُ الْوَهَّابُ اللَّهُمَّ إِنِّی أَسْأَلُکَ قَلِیلا مِنْ کَثِیرٍ مَعَ حَاجَةٍ بِی إِلَیْهِ عَظِیمةٍ وَ غِنَاکَ عَنْهُ قَدِیمٌ وَ هُوَ عِنْدِی کَثِیرٌ وَ هُوَ عَلَیْکَ سَهْلٌ یَسِیرٌ.
بسم الله الرحمن الرحیم الحمد لله رب العالمین و صلی الله علی محمد و اله طیبین الطاهرین
رمضان، اللہ تعالیٰ کے ناموں میں سے ایک نام ہے. یہ مہینہ شھر اللہ الاکبر(مہینوں کا سردار مہینہ) ہے مستحبات کے علاوہ، دعائیں اور نوافل  بھی اس ماہ میں وارد ہوئے ہیں، بعض علماء نے رمضان کو اللہ تبارک و تعالیٰ کے اسماء میں سے ایک اسم قرار دیا ہے. لذا فرماتے ہیں لفظ رمضان کو مطلقاً(فقط رمضان) نہ کہیں بلکہ شھر الرمضان کہیں اور جب بھی اس ماہ کا نام لینا چاہیں تو ماہِ رمضان کہیں کیوں؟ کیونکہ اگر رمضان خدا کے اسماء میں سے ایک اسم ہو تو دوسرے اسماء کی طرح اسکا مفہوم یوں ہونا چاہیے کہ ہم کہیں یا رمضان! اے وہ خدا جو گناہوں کا بخشنے والا ہے اور بخشش و عفو تیری جانب سے ہے. یا رمضان، یا غفور کی مانند خداوند تبارک و تعالیٰ کا نامِ نامی ہے لذا فقط رمضان کہنے سے اسکا کوئی معنیٰ و مفہوم نہیں بنتا؛ لیکن اگر ہماری یہ مہینہ ہے تو پھر اسکا نام لینا چاہیے کہ یہ ماہِ خدا ہے اور ماہِ رمضان ہے. در حقیقت اگر اسم رمضان، نامِ خدا ہے تو تبادرِ ذھنی خدا کی طرف متوجہ ہوگا جبکہ ہم مہینے کو بیان کرنا چاہتے ہیں کہ یہ مہینہ ایسا اور ویسا ہے اور اس ماہ کی مخصوص راتیں،دن اور سحر ہیں اور اسکے علاوہ بھی اسکی خصوصیات زیادہ ہیں.

*ماہِ رمضان میں دو حکموں کا منسوخ ہونا*

ماہ رمضان میں دو حکم خصوصی طور پر  منسوخ کئے گئے. جیسا کہ آپ جانتے ہیں کہ قرآن میں «ناسخ و منسوخ» اور «متشابہ و غیر متشابہ» پائے جاتے ہیں.
صدر اسلام میں امتِ محمدیؐ کے لئے حرمت کی وجہ سے دو کام  ریاضتِ نفس کی نوع میں سے کافی سنگین اور مشقت آمیز تھے. پہلا یہ کہ جیسے ہی مغرب ہوتی تھی تو جس طرح دن میں جماع کرنا حرام تھا اسی طرح یہ حکم رات کو بھی نافذ ہوتا تھا. مباشرت ان دس چیزوں میں سے ہے جن سے روزہ باطل ہوجاتا ہے. صورتحال یہ تھی کہ میاں بیوی کو جماع کرنے کی مکمل ممانعت تھی یہاں تک کہ ماہ رمضان ختم ہو جائے. اگرچہ یہ کام ریاضتِ نفس اور شہوات کو مہار کرنے کے لئے انجام دیا جاتا تھا لیکن یہ امر بعض جوانوں کے لئے سنگین تھا اور وہ معصیت میں مبتلا ہوتے تھے. ممکن ہے پختہ لوگ اپنے آپ کو بچا پاتے ہوں لیکن وہ میاں بیوی جنہوں نے ماہِ رمضان کے نزدیک شادی کی تھی انکے لئے یہ کام نہایت مشکل تھا اگر وہ ایک مہینہ صبر کرتے..لذا اس کام کی سختی اور سنگینی کی وجہ سے گناہ میں مبتلا ہوتے تھے.لذا جب اس درخواست کی پیامبرؐ اسلام کی خدمت میں لے گئے تو آپ نے محضرِ پروردگار کی طرف رجوع فرمایا اور خداوند متعال سے طلب کیا کہ اس حکم کو میری امت سے اٹھا دے. اب کیسے اس حکم کے منسوخ ہونے سے آگاہ ہوں؟ آیتِ ناسخ کی رو سے آگاہ ہونگے.
اس آیت میں ارشاد ہوا ہے: أُحِلَّ لَکُم لَیْلَۃَ الصِّیَامِ الرَّفَثُ أِلَی نَسائِکُمْ»؛آپ کے لئے ماہ رمضان کی راتوں میں بیویوں کیساتھ مباشرت کو حلال کر دیا گیا ہے. لذا ہم دیکھتے ہیں کہ ہر مہینے کی پہلی تاریخ کو بیوی سے ہمبستری کرنا مکروہ ہے. لیکن. ماہِ رمضان میں جب یہ حکم اٹھا لیا گیا تو یہ کام مستحب ہے اور یہ خدائی حکم سہولت و آسانی کے لئے تھا کلمہِ أُحِلَّ سے سمجھتے ہیں کہ پہلے حُرِّمَ تھ(یعنی حرام تھا)  اگرچہ قرآن میں اس موضوع سے ریلیٹڈ حرمت والی آیت موجود نہیں ہے. لیکن جب خداوند متعال فرما رہا ہے کہ اب حلال کر دیا گیا ہے تو اسکا مطلب یہ ہے کہ پہلے حرام تھا اس لئے اب حلال ہو رہا ہے.پس ہم حکمِ منسوخ کو اسی آیت کے اندر سے کشف کریں گے ناسخ نیز یہی آیت ہے.
دوسرا حکم جو کہ منسوخ کیا گیا اسکے بارے میں ارشاد ہوتا ہے : «کُلُوا وَاشْرَبُوا حَتَّی یَتَبَیَّنَ لَکُمْ الْخَیْطُ الأَبْیَضُ مِنَ الْخَیطِ الأَسْوَدِ».یعنی طلوع فجر تک کھاؤ اور پیئو. اس آیت سے یہ پتہ چلتا ہے کہ پہلے یہ کھانا پینا جائز نہیں تھا اس لئے اب فرمایا جا رہا ہے کہ کھائیں اور پیئیں. مفسران فرماتے ہیں کہ صدرِ اسلام میں ماہِ رمضان کی راتوں میں ایک شخص جب تک بیدار ہے کھا پی سکتا ہے؛ یعنی اگر ماہِ رمضان کو شب بیداری کرتا تو جیسے ہی سو جاتا تو کھانا اور پینا اس کے لئے ممنوع ہو جاتا؛ اگرچہ طلوعِ فجر تک کئی گھنٹوں کا فاصلہ ہوتا تھا لیکن پھر بھی کھانا پینا ممنوع تھا. یہ حکم امتِ اسلام کے لئے نہایت سخت تھا؛ لذا اصحاب پیامبرؐ اکرم کے پاس تشریف لائے اور پیامبرؐ سے طلب کیا تو آپؐ نے بھی دعا فرمائی اور یہ آیت «کُلُوا وَاشْرَبُوا حَتَّی یَتَبَیَّنَ لَکّمُ الْخَیطُ الاَبْیَضُ مِنَ الخَیْطِ الاَسْوَدِ» نازل ہوئی. یہاں پر پہلی آیت کی طرح منسوخ کو نیز آیتِ ناسخ سے سمجھیں گے.

*سیر و سلوک میں شب بیداری و سحر خیزی کے اثرات*

سیر و سلوک کے مسائل میں شب بیداری کا ذکر ہوا ہے یا نفس کو لذات اور شہوات سے روکنا یہ ایک قسم کی ریاضت ہے جو کہ تزکیہ نفس کا سبب بنتی ہے؛ لیکن آپ لطف خداوند کا مشاہدہ کریں کہ اس نے یہ دو سنگین احکام کو اٹھا لیا. اب ہمیں ملاحظہ کرنا چاہیے کہ یہ دو حکم کافی مدت جاری و ساری تھے اور پھر بعد میں اٹھائے گئے؛ لذا جتنا ممکن و میسر ہو شب بیداری کی طرف توجہ کریں. البتہ شب قدر کی راتوں کو میں اس سنت حسنہ(شب بیداری) کو بجا لانا روایات میں وارد ہوا ہے. اور پیامبرؐ اکرم نیز ماہ رمضان کے آخری عشرے میں اپنے بستر کو گھر سے جو کہ مسجد النبی کے نزدیک تھا مسجد کے اندر منتقل کر دیتے تھے اور آخری عشرہ رمضان اعتکاف میں بسر فرماتے. شب بیداری کے بارے میں ہے کہ یہ قائم اللیل ہیں!  صائم النہار ہیں!البتہ ہماری رائے و نظر یہ ہے کہ اگر حقیقت میں کسی کو نیند کی ضرورت ہے تو اسے کم از کم چھ گھنٹے سونا چاہیے اور اگر رات میں معین عبادت نہ کرسکیں تو دوسرے دن اسکا جبران کرے.

*نعمتوں کا شکر بجالانا، عشق و محبت الھی پیدا کرنے کا موجب*

جن دو امور کی طرف اشارہ کیا گیا ہے ان میں سے ایک حمدِ الھی کا موجب بنتا ہے کہ جسے دعائے افتتاح میں پڑھا گیا ہے
«اَلْحَمْدُ لِلَّہِ بِجَمِیعِ مَحَامِدِہِ کُلُّھا عِلَی جَمِیْعِ نِعَمِہِ کُلُّھَاَ». اگر یہ دونوں امور ابھی تک جاری و ساری ہوتے تو ہماری کیا حالت ہوتی؟ خداوند متعال کی تمام نعمات کہ یہ بھی ایک نعمت ہے کا شکر ادا کرنا چاہیے. ساری نعمتیں چاہے چاہے چھوٹی ہوں یا بڑی، ظاہری ہوں یا باطنی، مادی ہوں یا معنوی، دنیاوی ہوں یا اخروی ان سب کا شکر ادا کرنا چاہیے.عشق الھی اور محبت کو ایجاد کرنے کا سب سے بڑا سبب، نعمتوں کو شمار کرنا اور اسکے بعد انکا شکر ادا کرنا ہے. 
اس نے ہمیں جو چھوٹی اور بڑی نعمتیں دی ہیں اس کے بارے میں غوروفکر کرنا اور ان کا مطالعہ اور تجزیہ کرنے کے ذریعے منعم کی شناخت حاصل کرنا، معنوی ترقی میں بہت زیادہ تاثیر رکھے گا.

*صفاتِ ثبوتیہ و سلبیہ*

«اَلْحَمدُ لِلَّہِ الَّذِی لَا مُضَادَّ لَہُ فِیْ مُلْکِہِ» دوسرے جملے اور اسکے بعد خداوند متعال کی صفات سلبیہ کو پڑھتے ہیں. خدا کی صفات دو قسم کی ہیں صفاتِ ثبوتیہ و صفاتِ سلبیہ. جب ہم کہتے ہیں کہ خداوند عالم لطیف، منعم، قادر، طاقتور اور دانا ہے تو ان صفات کا تعلق صفاتِ ثبوتیہ سے ہے. کچھ ایسے امور ہیں جنکی نسبت خداوند متعال کی طرف نہیں دی جا سکتی جیسے «لم یلد»،  «لم یولد» اسکا کوئی ماں، باپ اور بیٹا نہیں ہے اسے کسی نے جَنا نہیں ہے؛  «لم یکن لہ کفوا احد» اس کی شبیہ و نظیر نہیں ہے! مثلاً یہی دعا جو کہ آج رات ہم نے پڑھی ہے، «لا مضاد لہ»، امور مملکت میں اسکے ضد کی نفی اور اسکے مخالف کے وجود کی نفی موجود ہے.آج ممالک کے سربراہوں اور باقی اعلیٰ عہدہ داروں کے درمیان دیکھا جاتا ہے کہ ایک شخص ایک مملکت کا سربراہ منتخب ہوا ہے لیکن بغاوت کے ذریعے اس سے صدارت چھین لی جاتی ہے؛  کیا خداوند عالم کی بھی کوئی ضد، شریک، منازع اور اسکی شبیہ پائی جاتی ہے؟ اصلاً ایسا خدا کیا عبادت و پرستش کے قابل ہے  اور کیا یہ ایک بزرگ ذات کے لئے نقص و عیب نہیں ہے؟ ایسے خدا کی پرستش نہیں کی جا سکتی. پس دو خداؤں میں ہر ایک دوسرے کے امور کو دیکھتا ہو تو یہ دوسرا خدا زائد تصور ہوگا اور اگر ہم کہیں کہ دونوں ایک دوسرے کی مدد اور کمک سے جھان کو چلائیں تو اس سے یہ ثابت ہوتا ہے کہ پہلا خدا محتاج ہے درحالیکہ ذاتِ باری تعالیٰ کا مقدس اور بے نیاز ہونا انتہائی ضروری ہے. ممکن ہے آپ سوال کریں کہ بعض لوگ اس دنیا میں آئے ہیں جنہوں نے بحسب ظاہر خداوند بزرگ کیساتھ دعوی و منازعہ کیا ہے اگرچہ یہ محال ہے کہ عالَم آخرت میں خداوند کا  کوئی مدمقابل موجود ہو؛ ارشاد رب العزت ہوتا ہے «لمن الملک الیوم للہ الواحد القھار» یعنی دونوں کو ظاہری اور باطنی طور پر ایک دیکھتے ہیں؛ قیامت کے دن حاکمیت صرف خدا کی ذات کیساتھ خاص ہے سارے فرعون و نمرود اور وہ لوگ کہ جنہوں نے خدا  کیساتھ جھگڑا کیا ہو روز قیامت محکوم و سزا یافتہ ہونگے. پس اس دنیا میں کیا حالت ہوگی؟ فرعون اس عالَم مادی میں آیا اور کہا «انا ربکم الاعلیٰ»؛ اسی طرح نمرود آیا جیسا کہ ہم تاریخ میں پڑھتے ہیں اور انکے علاوہ کتنے بادشاہ و سلاطین گزرے ہیں کہ جنہوں نے خدا سے نزاع کیا ہے پس اس جملے «لا مُنَازِعَ لَہُ فِی أَمْرِہِ»، «لا مُضَادَّ لَہُ فِی مُلْکِہِ» کا کیا مطلب ہوگا؟ درحالیکہ وہ سب ظاہری طور پر اس دنیا میں آئے! اس کا جواب یہ ہے کہ ہم عالَم واقع کی طرف نگاہ کریں گے اگرچہ وہ آئے اور انہوں نے ربوبیت کا دعویٰ کیا لیکن یہ ادعا جھوٹ اور غلط تھا. در اصل اس واقعہ کی حقیقت اور واقعیت مہم ہے نہ یہ کہ کوئی جھوٹ اور اسباب ظاہری کی بنا پر کہے ہم بھی پروردگار ہیں! یہ نزاع اور تعارض کرنے والے ذرہ برابر بھی عظمتِ خداوند میں موثر واقع نہیں ہو سکتے. معارضین اور وہ لوگ جو منکرِ ربوبیت خدا ہوئے وہ دوسرے کی نسبت زیادہ ذلیل و رسوا ہوئے. فرعون دریائے نیل میں غرق ہوا. نمرور کا انجام کیا ہوا؟ وہ سارے مدعیان جو کہ خداوند متعال سے نزاع کرتے ہیں آپ دیکھتے ہیں کہ وہ آخرکار کیسے بڑے مصائب میں گرفتار ہوتے ہیں اور کیسے نابود ہو جاتے ہیں.

*اس دنیا میں بندوں کی آزادی کا راز*

اس امر میں کونسا راز مضمر ہے کہ خداوند عالم نے دنیا میں بندوں کو آزاد رکھا ہے لیکن آخرت میں ایسی آزادی میسر نہیں ہے؟ 
اسکا جواب یہ ہے کہ دنیا ایک ایسا محل و مقام ہے جہاں انسان کی آزمائش ہونی ہے! حتماً کفر و ایمان اس مقام میں رہیں تاکہ کفار و مومنین نکھر کر سامنے آ سکیں اور حق و باطل کے درمیان فرق کیا جا سکے. پس جب ہم یہ جملہ پڑھتے ہیں کہ حمد ہے اس خدا کے لئے جسکا حکومت اور مملکت میں کوئی شریک و ضد نہیں تو یہ عینِ واقعیت ہے. «ولا مُنَازِعَ لَہُ فِی أَمرِہِ». خداوند متعال کا تشریعی اور تکوینی امور میں کوئی شریک نہیں ہے؛ یعنی خداوند متعال امور میں بالخصوص تکوینی امور کو ایک «کن فیکون» کیساتھ انجام دیتا ہے. پس کون ہے جو غیبی اور ارادی امور میں جو کہ اسکی مشیت کے مطابق ہے تنازع کرے. «الحَمدُ لِلَّہِ الَّذِی لا شَریکَ لَہُ فِی خَلْقِہِ» حمد ہے اس ﷲ کی جسکا مخلوق میں کوئی شریک نہیں ہے یعنی خلق کرنے میں وہ کسی کی مدد و معاونت کا محتاج نہیں ہے مثلاً آپ ایک کارخانے کی مثال لے لیجئے جسے دو یا چند افراد نے مل کر بنایا ہے چونکہ ایک شخص کے پاس اتنا سرمایہ نہیں تھا کہ وہ اکیلا اسکو چلاتا لذا اس نے محتاج تھا کہ کچھ اور افراد جمع ہوں اور شاپنگ مال یا کارخانے کو چلائیں. پس شریک و شراکت کی اصل و جڑ محتاجی ہے جبکہ خداوند کی ذات بے نیاز ہے. «وَ لا شَبِیہَ لَہُ فِیْ عَظَمَتِہِ» آپ جتنی بھی بزرگ و عظیم چیز پر ہاتھ رکھیں لیکن وہ عظمتِ خدا کے سامنے بہت ہلکی محسوس ہوگی بلکہ اسکی کوئی قدر وقیمت نہیں ہے. مثال کے طور پر جبرائیلؑ کے بارے میں کہا جاتا ہے کہ اعظم الملائکہ ہے پروردگار کا سب سے عظیم مَلک ہے. ایک دن پیغمبر اکرمؐ نے چاہا کہ جبرائیل کو ویسا دیکھے جیسے وہ آسمانوں میں ہوتا ہے؛ لذا جب آپؐ نے نگاہ کی تو دیکھا کہ جبرائیل کا ایک پر مشرق میں ہے اور دوسرا مغرب میں..آپؐ غش کھا کر گر پڑے. لذا جبرائیل صحابی رسولؐ دحیہ کلبی کی صورت میں مسجد النبی میں تشریف لاتے تھے. اب یہ ایک عظیم مخلوق ہے پس اسکا خالق کون ہے؟ اسکا خالق وہی عظمت والا پروردگار ہے. پس اسکی عظمت میں کوئی اسکی شبیہ نہیں ہے وہ یکہ و تنہا ہے. «أَلْحَمدُ لِلَّہِ الْفَاشِی فِیْ الْخَلْقِ أَمْرُہُ وَ حَمْدُہُ» حمد ہے اس پروردگار کی جسکا امر مخلوقات(عالَم خلق اور عالَم مادی و طبیعی) میں ظاہر اور نمایاں ہے. فاشی یعنی نمایاں و ظاہر ہے. اسکے تکوینی امور ہمارے لئے ظاہر و نمایاں ہیں؛ اسی طرح اسکی حمد کے موجبات اس عالَم میں پھیلے ہوئے ہیں. جب ایک عارف خدا نعمتوں میں سے ہر ایک نعمت یا مخلوقات میں سے ہر مخلوق کی جانب نگاہ کرتا ہے تو اسکی نگاہ شاکرانہ و حامدانہ ہوتی ہے یعنی مُنعم کو نعمت میں اور محمود کو حمد میں دیکھتا ہے. پس کیسے خدا کی حمد نہ کرے؟  بزرگان میں سے ایک بزرگ کا ذکر الحمد للہ تھا. صبح و شام یہی ذکر فرماتے تھے؛ ہم انکے ساتھ ہوتے تھے وہ کہتے تھے کہ یہ کیسی حالت ہے کہ وہ گھر اور مسجد میں حمدِ خدا کرتے ہیں؟  «الفاشی فی الخلق حمدہ» انکا جواب یہ تھا کہ جب میں آثارِ حمد کے علاوہ کچھ نہیں دیکھتا اور محمود کے علاوہ کسی اور چیز کو نہیں دیکھتا تو کیسے ممکن ہے کہ حمد خدا کو انجام دوں!. جس جگہ اور جس طرف نگاہ کروں ایسے ہی نظر آتا ہے. «أَلظَّاھِرُ بِالْکَرَمِ مَجْدُہُ الْبَاسِطِ باِلْجُودِ یَدَہُ» خدا کے اسماء میں سے ایک نام کریم و جواد ہے یہ جود و کرم ایک ایسا امر ہے جو اہل معرفت اور ہم پر پنہان نہیں ہے. یہ ایسی چیز ہے جو ظاہر و روشن ہے اور دستِ خدا کی وسعت ہمارے لئے ایک امر مسلم ہے. البتہ ان لوگوں کے لئے جو اھل اللہ اور اولیاء اللہ ہیں چونکہ اس دعا کا منشاء ولی خدا ہیں اور آپؑ نے باطنی معرفت کی بناء پر اس دعا کو بیان فرمایا ہے. «الَّذی لَا تَنْقُصُ خَزَائِنُہُ وَ لَا تَزیدُہُ کَثرَۃُ العَطَاءِ أِلَّا جُودا وَ کَرَما أِنَّہ ھُوَ العَزیزُ الْوَھَّابُ» یہ تاکیدیں ہیں ایک کے بعد دوسری تاکید ہے ایک جگہ فرمایا اسکا جود و کرم ظاہر ہے ! پھر فرمایا اسکے خزانوں میں ذرہ برابر نقص پیدا نہیں ہوتا. اسکی ڈھیر عطا اسکے خزانے کو کم نہیں کرتی ہے. یہ جود و کرم کے اوپر تاکید ہے کہ مسئلہ واضح اور روشن ہے اور ذرہ برابر اس میں اخفاء نہیں ہے. «انہ ھو العزیز الوھاب»، وھاب اور عزیز جیسے اذکار کا رابطہ ان مطالب سے ہے جنکو بیان کیا جا چکا ہے. جب ایک با عظمت اور کریم خالق کے خزانے روز بروز بڑھ رہے ہوں اور کچھ بھی ان میں سے کم نہ ہو تو کیا یہ اسکے لئے عزت نہیں ہے؟ ا
یہ خدا کے لئے ایک قسم کی عزت ہے! جب ایسی صفات و کمال و مقدرات کا مالک خدا موجود ہو تو حقیقت میں اسکی عزت کا تعلق انہی اوصاف و افعال کیساتھ ہے. الوھاب کیوں کہا ہے؟ چونکہ وھاب، فعَّال کے وزن پر ہے جسکا معنیٰ ہبہ کرنا اور بخشنا ہے. جب ہم نے اس دعا میں خداوند متعال کی اتنی زیادہ نعمتوں کو گنا اور بیان کیا، تو یہ نعمات کس کی جانب سے ہیں؟ خدا کی طرف سے.! کس نے ہبہ اور عطا کیا ہے؟ اس نے عطا کیا ہے!  لذا جو مطالب بیان ہوئے ہیں ان میں خدا کا وھاب ہونا ظاہر و نمایاں ہوگیا ہے. لذا وھاب کے کلمے کو اسی مناسبت سے انہی مطالب کیساتھ لایا ہے. پھر ایک مطلب کو بیان فرمایا ہے کہ اسی کیساتھ ہی ہم اپنی بات کو ختم کریں گے.

*خدا کے سامنے اپنی حاجت کو مشخص کرنا*

بحث میں وارد ہونے سے پہلے ایک مقدمہ عرض کرتا ہوں. ہم اور آپ دیکھیں کہ ابھی جو جملہ پڑھا جائے گا ہمارے ذھن میں کیا ہے؟ ہمیں چاہیے کہ اپنی بڑی حاجت کو خداوند متعال کے حضور مشخص کریں. ممکن ہے بعض لوگوں کے لئے معرفت الھی نہ رکھنے کی وجہ سے مادی و دنیاوی حاجات نہایت اہم و قیمتی ہوں لیکن ایک سالک الی اللہ یا جو اس راہ میں سیر کر رہا ہے کیا اسکے لئے معرفتِ خدا کے علاوہ کوئی اور چیز اپنے لئے طلب کر سکتا ہے؟!  کیا ایک سالک جو کہ اتنی زیادہ ریاضتیں کرتا ہے اور اتنے زیادہ دستوراتِ سلوکی پر عمل کرتا ہے کیا اسکا معرفتِ توحید کے علاوہ بھی کوئی اور مقصد ہو سکتا ہے؟ اب اگر کسی جگہ ایسا مطلب آ جائے اور مسئلہ آگ کو بیان کرتا ہے مثلاً دعائے جوشن کبیر کی ہر فصل کے آخر میں پڑھا جاتا ہے : «سبحانک یا الا الہ الا انت الغوث الغوث خلصنا من النار یا رب»؛ البتہ جہنم کی آگ سے نجات حاصل کرنا نیز ایک اہم حاجت ہے. لیکن سوال یہ ہے کہ اگر ہم معرفتِ خدا کو اپنے اندر پیدا کریں تو آتشِ جہنم سے نجات بھی پا لیں گے؛ جنت میں داخل بھی ہو جائیں گے. پس «یا علی یا  عظیم»  جو کہ ماہِ رمضان میں تعقیباتِ نماز میں پڑھی جاتی ہے اسکے آخری جملے کو پڑھیں «بِفَکَاکِ رَقَبَتِیْ من النَّار» یا بعض دعاؤں میں «اعتق رقبتی من النَّار» یا « فیا ذَا المَنِّ ولا یُمَنُّ عَلَیکَ مُنَّ عَلَیَّ بِفَکَاکِ رَقَبَتِیْ من النَّارِ« پڑھتے ہیں،  «فک رقبہ» کا مطلب آتشِ غضب خدا سے گردن کا آزاد ہونا ہے. پس عارف کے لئے ان میں سے کون زیادہ اہم ہے؟
یہ کہ جہنم میں نہ جائے! بھشت میں جگہ مل جائے! یا خود خدا مہم ہے! جب آپ کے پاس سو روپے ہیں تو 99 حتماً ہیں. یہی وہ جگہ ہے جب ہم دعائے افتتاح کے اس جملے پر پہنچتے ہیں تو کہتے ہیں: «اللَّھُمَّ أنِّیْ أَسْأَلُکَ قَلِیلاً مِن کَثِیْرٍ مَعَ حَاجَۃٍ بِی أِلَیہِ عَظِیْمَۃٍ»؛ یعنی میں آپ سے عظیم حاجت کا سوال کرتا ہوں. عظیم حاجت کیا ہے؟ اسکے بارے میں ہمیں فکر کرنی چاہیے. یہاں پر اس عظیم حاجت کو بیان نہیں فرمایا لیکن عارف و سالک اس دعا کے مفہوم کو جانتے ہیں. یا اگلے ہفتے دعا کے اس حصے تک پہنچیں گے اور کہیں گے، «لَعَلَّ الَّذِی أَبْطَأَ عَنِّیْ ھُوَ خَیْرٌ لِیْ لِعِلْمِکَ بِعَاقِبَۃِ الأُمُوْرِ» کہ وہاں پر خداوند عالم سے حاجت طلب کرنا ہے کہ بعد میں اسکی وضاحت پیش کریں گے. خدایا میں تجھ سے سوال کرتا ہوں ایسی حاجت کا حو عظیم ہے اور تو ہمیشہ و قدیم سے غنی مطلق ہے تو مجھ تک پہنچنے سے بے نیاز ہے لیکن یہ میں ہوں جو تجھ تک پہنچنے کا محتاج ہوں. «وَ ھُوَ عِنْدِی کَثِیْرٌ» یہ حاجت میرے نزدیک بہت بڑی ہے «وَ ھُوَ عَلَیْکَ سَھْلٌ یَسِیر» لیکن تیرے لئے نہایت آسان ہے. ایک ایسی حاجت جو بہت زیادہ اور عظیم ہے لیکن اسکا عطا کرنا خدا کے لئے آسان ہے، وہ کونسی حاجت ہے؟ ہمیں ہوشیار ہونا چاہیے اور دھوکہ نہیں کھانا کھائیے ہمیں ایسی حاجتوں کے پیچھے نہیں جانا چاہیے جو اسکے مقابلے میں کوئی اہمیت نہ رکھتی ہوں. اگر وہ حاجت پوری ہو گئی تو اس میں ہر چیز موجود ہے. ہم امید کرتے ہیں کہ آپ حضرات اس مطلب کی طرف توجہ کریں گے جو آخر میں بیان کیا گیا ہے.

*مناجات*

اے ہمارے پروردگار! ماہِ رمضان کے ان با برکت ایام اور لیالی میں ہماری اسکے علاوہ کوئی اور دعا نہیں ہے کہ ہمیں نفس کی ذلت سے نجات عطا فرما. ہمارے ہاتھ کو نفس کے کنویں سے تھام لو اور ہمیں باہر نکالو! اے خداوند! آپ ہماری نیتوں سے اچھی طرح واقف ہیں.  ممکن ہے ہماری نیت اور ہمت ضعیف و کمزور ہو لیکن تجھ سے سوال کرتے ہیں کہ اس راہ میں ہماری نیت کو محکم و استوار فرما تاکہ ہم تجھ تک پہنچ سکیں. اے خداوند اگرچہ ہم آپ تک نہ پہنچے تو اگر آپ اس راہ میں ہماری نیت کو قوی کر دو تو ہم اپنی تمام چیزیں فنا کرنے کے لئے حاضر ہیں لیکن تجھے کھونا نہیں چاہتے. خدایا! ہمارے حق میں اپنا لطف و کرم فرما اور اس شریف مہینے میں ہماری مہمانی اپنی ذات تک پہنچنا قرار دے. اے پروردگار! ہمارے دلوں کو اپنی معرفت اور محبت سے سرشار فرما. خدایا! نفس اور شیاطین کے وسوسوں کو ہم سے دور فرما. اللھم غیر سوء حالنا بحسن حالک. اللھم اصلح کل فاسد من امور المسلمین بحرمۃ سورہ المبارکہ الفاتحۃ مع الصلوات.
ostad_komeily_1

فهرست مطالب

اشتراک گذاری در facebook
اشتراک گذاری در twitter
اشتراک گذاری در google
اشتراک گذاری در linkedin
اشتراک گذاری در digg
اشتراک گذاری در whatsapp
اشتراک گذاری در email
اشتراک گذاری در print
اشتراک گذاری در telegram