شرح دعائے افتتاح (حصہ اول)
*خطاب:استاد معظم و مکرم حضرت آیت اللہ کمیلی خراسانی دام ظلہ*
شبِ اول ماہ رمضان 1439ھ
*دعائے افتتاح کا عربی متن*
«اللَّهُمَّ إِنِّي أَفْتَتِحُ الثَّنَاءَ بِحَمْدِكَ، وَ أَنْتَ مُسَدِّدٌ لِلصَّوَابِ بِمَنِّكَ، وَ أَيْقَنْتُ أَنَّكَ أَنْتَ أَرْحَمُ الرَّاحِمِينَ فِي مَوْضِعِ الْعَفْوِ وَ الرَّحْمَةِ، وَ أَشَدُّ الْمُعَاقِبِينَ فِي مَوْضِعِ النَّكَالِ
وَ النَّقِمَةِ، وَ أَعْظَمُ الْمُتَجَبِّرِينَ فِي مَوْضِعِ الْكِبْرِيَاءِ وَ الْعَظَمَةِ. اللَّهُمَّ أَذِنْتَ لِي فِي دُعَائِكَ وَ مَسْأَلَتِكَ، فَاسْمَعْ يَا سَمِيعُ مِدْحَتِي، وَ أَجِبْ يَا رَحِيمُ دَعْوَتِي، وَ أَقِلْ يَا غَفُورُ عَثْرَتِي، فَكَمْ يَا إِلَهِي مِنْ كُرْبَةٍ قَدْ فَرَّجْتَهَا، وَ هُمُومٍ قَدْ كَشَفْتَهَا، وَ عَثْرَةٍ قَدْ أَقَلْتَهَا، وَ رَحْمَةٍ قَدْ نَشَرْتَهَا، وَ حَلْقَةِ بَلاءٍ قَدْ فَكَكْتَهَا. الْحَمْدُ لِلَّهِ الَّذِي لَمْ يَتَّخِذْ صَاحِبَةً وَ لا وَلَداً، وَ لَمْ يَكُنْ لَهُ شَرِيكٌ فِي الْمُلْكِ، وَ لَمْ يَكُنْ لَهُ وَلِيٌّ مِنَ الذُّلِّ وَ كَبِّرْهُ تَكْبِيراً.»
*بسم الله الرحمن الرحیم و به نستعین و صل الله علی محمد و آله الطاهرین*
*کلمہ افتتاح کا مفہوم و معنیٰ*
جیسا کہ کلمہ افتتاح سے سمجھا جا سکتا ہے کہ یہ افتتاح و آغاز، اللہ تبارک و تعالیٰ کی حمد و ثنا اور بزرگی کا آغاز ہے.
کلمہ افتتاح اس دعا کے پہلے پیراگراف(اللھُمَّ أِنِّیْ أَفْتَتِحُ الثَّنَاءَ بِحَمْدِکَ»؛ سے لیا گیا ہے. آپ خداوند تبارک و تعالیٰ کے نام کے بعد بسم اللہ اور پھر خدا کی حمد و ثناء کرتے ہیں جیسا کہ ہر تقریر اور بیان میں ہوتا ہے. چونکہ اس دعا میں بہت زیادہ مطالب بیان ہوئے ہیں پس اس دعا کی ابتداء حمد و ثنا کیساتھ شروع کرتے ہیں.
«اللَّھُمَّ أِنِّیْ أَفْتَتِحُ الثَّنَاءَ بِحَمْدِکَ»؛ اے خدا میں تیری تعریف و ثنا کو تیری حمد و سپاس کیساتھ شروع کرتا ہوں؛ یعنی نعمتوں کا شکریہ و سپاس خداوند کی حمد و ثناء سے شروع ہوتا ہے. سورہ حمد میں نیز(الحمد للہ رب العالمین) پڑھتے ہیں. تمام نعمتوں کا شکر بجا لانا یہ حمد و ثناء الہی میں منحصر ہے.
آپ اگر کسی شخص سے احسان و نیکی کے بدلے میں جب اسکا شکریہ ادا کرتے ہیں تو در حقیقت یہ شکر و تعریف، اللہ تعالیٰ کی حمد و ثناء ہے. وہ خالق، رازق اور روزی دینے والا ہے. وہ قادر اور طاقت بخشنے والا ہے. تمام نعمتوں، طاقتوں اور بخششوں کا عطا کرنے والا ہے. ممکن ہے ہم کسی کا زبان سے شکر ادا کریں لیکن در حقیقت یہ شکر ایک نفر یعنی خداوند تبارک و تعالیٰ کی ذات کی طرف لوٹتا ہے.
«اللَّھُمَّ أِنِّی أَفْتَتِحُ الثَّنَاءَ بِحَمْدِکَ وَ أَنْتَ مُسَدِّدٌ للصَّوَابِ بِمَنِّکَ»؛
خدایا! حق و صراط مستقیم پر چلنے کے لئے تیری قوت و مدد کا محتاج ہوں. اے خدا! مجھ پر تیری مدد کا آنا یہ تیرے فضل و کرم کا نتیجہ ہے. لذا ہمیں کسی بھی صورت میں خدا سے طلب کرنے والا نہیں بننا چاہیے. ہمارا خداوند متعال کے ذمہ کوئی حق باقی نہیں ہے. کیونکہ تمام نعمتوں و عطیوں کا دینے والا وہی ہے. اس نے ہم پر احسان کیا ہے اور تمام نعمتیں اسی کی عنایت کردہ ہیں اور ہم اسکی مدد و عنایت کے بہت زیادہ محتاج ہیں.
«للصَّوَابِ»؛ تاکہ صحیح راستہ اختیار کریں اور اپنے لئے صراط مستقیم و درست راستے کا انتخاب کریں.
*خوف و رجاء*
«وَ اَیْقَنْتُ أَنَّکَ أَنْتَ أَرْحَمُ الرَّاحِمِینَ فِی مَوْضِعِ الْعَفْوِ وَ الرَّحْمَۃِ»؛ ان تین جملوں میں جو کہ پے در پے آئے ہیں تین صفاتِ الہی «أرحَمُ الرَّاحِمین»، «أشَدُّ الْمُعَاقِبِیْنَ» و «أَعْظَمُ الْمُتَجَبِّرِیْنَ» کا نام لیا گیا ہے. ان تینوں صفات میں سے ہر ایک، ایک بڑے مقصد کی طرف اشارہ کرتی ہیں. مثلاً «أرحم الراحمین» کا مقام و محل کہاں ہے؟ اسکا جواب «فی موضع العفو والرحمۃ» میں دیا گیا ہے؛ یعنی اس رحمت کی جگہ عفو و رحمت الہی میں ہے. ہم خداوند متعال کو «ارحم الراحمین» گناہوں کی بخشش اور لغزشوں سے درگزر کرنے کے لئے پکارتے ہیں اور اسے اس مہربان نام سے پکارتے ہیں. اے ہر مہربان سے زیادہ مہربانی کرنے والے! وہ بھی کہاں؟ وہاں پر جہاں عفو و درگزر کا مقام ہے ہماری حاجت و احتیاج اس میں ہے کہ تو ہماری طرف نظرِ کرم فرمائے! معاف کرو اور رحم کرو!
«أرحم الراحمین» خداوند متعال کی جمال صفات اور «أشَدُّ الْمُعَاقبین» و « أعظمُ الْمتَجَبِّرِینَ» صفات جلال میں سے ہیں. پس مومن کو خوف و امید کے درمیان رہنا چاہیے. ایک طرف ہمیشہ، اپنے آپ میں امید قائم رکھے تاکہ نا امید نہ ہو. چونکہ نا امیدی گناہانِ کبیرہ میں سے ہے جسے «ارحم الراحمین» کیساتھ درست کیا جا سکتا ہے. دوسری قسم جو کہ رجاء و امید کے مدمقابل ہونی چاہیے وہ خوف ہے کہ «اشد المعاقبین» کے ذریعے ہمارے وجود میں پیدا ہوتی ہے؛ یعنی جب رحمتِ خدا کی طرف نگاہ کرتے ہیں تو امیدوار ہو جاتے ہیں اور جب عذاب الہی کی طرف دیکھتے ہیں تو خوف ہمیں گھیر لیتا ہے اور یہی خوف و امید آگے بڑھنے کے دو عوامل ہیں.
«أَ شَدُّ الْمُعَاقِبِیْنَ» کو کہاں خدا سے طلب کرنا چاہیے؟ «فِی مَوضِعِ النَّکَالِ وَ النَّقِمَۃِ» میں.
ایسی صفت کی جگہ وہاں ہے جہاں پر خداوند متعال عذاب و انتقام کو جاری کرتا ہے اور یہی عدلِ الہی کا تقاضا ہے. اگر خدا کافر و مسلمان کو ایک ہی ترازو میں تولے تو یہ اسکے عدل کیساتھ سازگار نہیں ہے. اگرچہ اگر خداوند چاہے تو اپنی مصلحت و مشیت کے تحت اپنے تمام بندوں کو بخش دے لیکن ہم دیکھتے ہیں کہ بہشت کیساتھ ، جہنم بھی موجود ہے کیونکہ اگر اگر ایسا نہ ہوتا تو انسان کبھی بھی ترقی نہ کرتا. دینی اور اعتقادی رو سے بشریت کی ترقی کا راز اسی خوف و رجاء میں مضمر ہے. اور اس بھیڑ والی دنیا میں اسی کے وسیلے سے ترقی کرے گا. اگر اس دنیا میں فقط رحمت ہو تو کیسے ایک انسان آزمائش کے بغیر کمال تک پہنچے گا؟ اسی طرح فقط خوف کا ہونا بھی کافی نہیں ہے، کیونکہ خوف انسان کو معلول کر دے گا. لذا انسان انہی دو پروں کی بدولت کمالات کی طرف پرواز کر سکتا ہے.
*ناسوت، لاھوت و جبروت*
«وَ أَعْظَمُ الْمُتَجَبِّرِیْنَ فِی مَوْضِعِ الْکِبْرِیَاءِ وَ الْعَظَمَۃِ»؛ ہم ایک ناسوت، ایک لاھوت اور ایک جبروت رکھتے ہیں. ناسوت، انسان کا فطری جنبہ ہے کہ جب اس وادی سے باہر قدم رکھے گا اور مادی دنیا سے عبور کرے گا تو اس وقت وہ لاہوتی اور الہی منزل تک پہنچے گا. اور یہی مقام لاھوتی اور جبروتی ہے. البتہ عرفاء فرماتے ہیں کہ جبروتِ خدا و کبریای الہی کا مسئلہ توحید سے پہلے کا ہے.انسان عالَم صفات و اسماء سے ذات الہی تک پہنچتا ہے اور اس دعا میں انہی مراتب کی جانب اشارہ کیا گیا ہے.
«وَ أَعْظَمُ الْمُتَجَبِّرِیْنَ فِی مَوْضِعِ الْکِبْرِیَاءِ وَ الْعَظَمَۃِ»؛ خدا ہی ہے جو کبریا، عظمت، جلالت اور ہیبتِ الہی کی منزل میں، سب سے بڑا جبروت ہے. کبریای فقط اسی کی ذات کے ساتھ مختص ہے. ارشاد فرمایا: «الکبریاء ردائی». در حقیقت تکبر کرنا خداوند متعال کی کبریای سے نزاع کرنے کے مترادف ہے! وہی کام جو کہ شیطان نے انجام دیا اور رحمتِ خدا سے دھتکار دیا گیا.
«اللَّھُمَّ أَذِنْتَ لِیْ فِی دُعَائِکَ وَ مَسْأَلَتِکَ»؛ اس جملے سے یہ سمجھا جا سکتا ہے کہ دعا کے کلمات کو ادا کرنے کے لئے لَب کو حرکت دینا یہ بھی خدا کے اذان و اجازت پر منحصر ہے. اے خدا تو نے مجھے اجازت دی تاکہ میری زبان تیرے سامنے دعا و سوال کے لئے گُویا ہو سکے. آپ جانتے ہیں کہ یہ ضعیف وکمزور انسان ہر سانس لینے میں بھی خدا کی مدد و کمک کا محتاج ہے. تمام انسانی اعضاء کی حرکت خداوند متعال کی اجازت اور مدد سے ممکن ہے. لذا اس جملے میں ہم یہ کہتے ہیں کہ اے خدا ہم چاہتے ہیں کہ دعائے افتتاح کو تیرے اذن و اجازت سے شروع کریں.
«اللَّھُمَّ أَذِنْتَ لِیْ فِی دُعَائِکَ وَ مَسْأَلَتِکَ»؛ اب جب کہ تو نے مجھے اپنے ساتھ گفتگو و مناجات کی اجازت عطا فرما دی ہے تو پس «فَاسْمَعْ یَا سَمِیْعُ مِدْحَتِیْ وَ أَجِبْ یَا رَحِیْمُ دَعْوَتِیْ وَ أَقِلْ یَا غَفُورُ عَثْرَتِیْ»؛ یہ تین جملے دعای افتتاح کی اساس اور بنیاد کو بیان کر رہے ہیں یہ دعا ہونے کے ساتھ ساتھ، مدحِ پروردگار بھی ہے یعنی خداوند متعال کی صفات اور اوصاف کے ذکر کیساتھ اسکی مدح و بزرگی بھی بیان ہو رہی ہے اور اس دعا میں ایسی حاجات طلب کی گئی ہیں جو اسکی اجابت کی نیازمند ہیں. اس دعا میں عبد اپنے معبود کیساتھ خطاؤں اور لغزشوں کو بیان کرتا ہے. ہم کہتے ہیں «فاسمع»! اے سمیع و سننے والے خدا، اس دعا میں میری مدح کو سنو.
*استجابت دعا کا مفہوم*
«وَ أَجِبْ یَا رَحِیْمُ دَعْوَتِی» میری دعا کو مستجاب فرما. ایک اہم نکتہ أَجِبْ اور استجابت الہی میں پایا جاتا ہے. «یا مجیب»، «امن یجیب» و «اجب دعوتی» کا مفہوم کیا ہے؟ یہ جو ہم کہتے ہیں کہ اے خدا میری دعا قبول فرما اور مجھے جواب دے تو اسکا مطلب کیا ہے؟ کیا اسکا یہی مفہوم اور معنیٰ ہے کہ میری حاجت کو پورا فرما! یا اسکا مفہوم حضورِ الہی ہے؟ خداوند متعال کیساتھ مناجات کے لئے حاضر ہونا اور اس سے لذت حاصل کرنا مہم ترین مسائل میں سے ہے. جب ہم خدا کو نزدیک دیکھیں. پس جب خدا کو نزدیک اور حاضر دیکھا اور اس سے دل کی بات بیان کی اور اس سے لذت حاصل کی اور ان مناجات کی حلاوت اور چاشنی ہمارے دل میں داخل ہوگئی، تو سمجھو اجابت ہو گئی ہے.
اگر یہاں کہا جائے کہ اجابت حاصل نہیں ہوئی تو یہ بے انصافی ہوگی.آپ نے دعا کی حالت سے خود کو حضور کی منزل تک پہنچایا درحالیکہ اس سے پہلے خدا سے فاصلہ رکھتے تھے اور اسے خود سے دور پاتے تھے! اب جبکہ اس سے بات کرنے میں کامیاب ہوئے ہو! اور اسے بات سے گفتگو کرتے ہو اسے دیکھتے ہو اور خود اسی سے کلام کرتے ہو! تو یہی گفتگو اور قریبی رابطہ، اجابت کی حقیقت ہے. جیسے دعا ہم سے دور نہیں ہے بعینہ اسی طرح اجابت بھی ہم سے دور نہیں ہے! ہم ایسے دعا کریں کہ خدا کو اپنے نزدیک پائیں اور اس سے گفتگو کریں. اگر ہم خدا کو کسی اور مقام پر رکھیں اور کسی اور مقام سے اسکے ساتھ کلام کریں تو یہ اس بات کا ثبوت ہے کہ حقیقت دعا ابھی تک ہمارے وجود میں پیدا نہیں ہوئی ہے. «وَ أَقِلْ یَا غَفُوْرُ عَثْرَتِی»، یہاں پر عثرت، غفور کیساتھ مناسبت رکھتی ہے. اجابت، رحیم کے متعلق ہے اور مدح کو سننا یہ سمیع کے ساتھ مناسبت رکھتی ہے. لذا ہر جملے میں خداوند متعال کی ہر اس صفت کو ذکر کیا ہے جو آپکی حاجت سے ریلیٹڈ ہے.
«فَکَمْ یَا أِلَھِی مِنْ کُرْبَۃٍ قَدْ فَرَّجْتَھِا،وَ ھُمُومٍ قَدْ کَشَفْتَھَا»، خداوند منان کی حمد و ثنا کے بعد آہستہ آہستہ اسکے مخفی لطف و عنایت کو درک کرتے ہیں. جب ہم نے خدا کو نزدیک پایا اور اس سے مناجات کی تو خدا کی عنایات اور مشکلات میں اسکی دستگیری کی یادآوری کے لئے اپنے ماضی میں لوٹ جائیں گے. وہ تمام حوادث اور سختیاں جو ماضی میں ہمارے ساتھ پیش آئیں اور ہم نے ان حوادث میں خدا کے لطف و کرم کا مشاہدہ کیا ان سب کو خدا کے سامنے بیان کرتے ہیں. ایک جگہ ہمیں ایک مشکل کا سامنا کرنا پڑا کہ اگر وہاں خدا کی مدد نہ ہوتی تو غرق ہو جاتے اور تباہ ہوجاتے. ایک جگہ ظاہری اسباب کے مہیا ہونے کے باوجود ایکسیڈنٹ نہیں ہوا اور ہمیں بچا لیا گیا اور اسی سابقہ زندگی میں مختلف خطرات سے محفوظ رہ گئے. البتہ یہ کام محاسبے اور فکر کا محتاج ہے. یہ کہ انسان اپنے ماضی کی طرف لوٹ جائے اور سابقہ واقعات کو یاد کرے کہ کہاں میں کنویں میں گرنے والا تھا لیکن خدا نے میرا ہاتھ تھام لیا! یا کسی مصیبت میں اس دستگیری فرمائی؛ ایک بیماری سے اس نے شفا مرحمت فرمائی؛ جہاں پاؤں لڑکھڑا گئے تھے وہاں اس نجات عطا کی. اسے مصیبتوں اور بلاؤں سے محفوظ رکھا! یہ سب اس وقت ممکن ہے جب آپ مکمل طور پر اپنی سابقہ زندگی کا دقیق محاسبہ کریں. اور دیکھو کہ خدا کا لطف و کرم نطفہ ٹہرنے سے لے کر جنین بننے اور دنیا میں آنے اور بڑے ہونے اور اب تک جاری و ساری ہے. جب انسان اپنی گذشتہ زندگی میں خداوند متعال کے ہر لطف و کرم کو یاد رکھے اور اسی طرح ان مقامات کو یاد رکھے جہاں پر خداوند متعال نے اسکی دستگیری فرمائی تھی تو خداوند قدوس کی محبت اسکے دل میں وارد ہو جائے گی اور اسکے لطف و کرم اور رحمت کو اپنے وجود میں محسوس کرے گا؛ لیکن اگر وہ اسی طرح غفلت میں پڑا رہے اور اپنا مراقبہ اور محاسبہ نہ کرے اسکا دل کبھی بھی روشن اور نورانی نہیں ہوگا.
«فَکَمْ یَا اِلَھِی مِنْ کُرْبَۃٍ قَدْ فَرَّجْتَھَا»، خدایا، کتنے ہی غموں کو تو نے دور کیا. «ھُمُوْمٍ قَدْ کَشَفْتَھَا» اور کتنے ہی مصائب کو زائل کیا. «وَ عَثْرَۃٍ قَدْ أَقَلْتَھَا» طے یہ تھا کہ ایک جگہ قدم رکھوں اور لغزش کروں اور گر جاؤں لیکن تو نے میرا ہاتھ تھام لیا اور مجھے گرنے نہ دیا. « وَ رَحْمَۃٍ قَدْ نَشَرْتَھِا» ماضی اور حال میں زندگی میں کئی ایسے موڑ آئے جہاں میں نے تیری مہربانی اور رحمت کو اپنے سر کے اوپر پایا اور یہی ایک کے بعد ایک رحمتیں میرے وجود میں پھیلتی چلی جاتی ہیں.
«وَ حَلْقَۃِ بَلَاءٍ قَدْ فَکَکْتَھَا» اور بلاؤں کی زنجیر کو کھولا ہے. ان جملات کو زبان سے ادا کرنا فکر کا محتاج ہے. یہ کہ ہم اپنی سابقہ زندگی میں پلٹ جائیں اور دیکھیں کہ ہماری زندگی میں خدا کا ہاتھ کہاں اور کیسے موجود تھا. ان ماضی کے لمحات کو یاد کریں. بلکہ ہمیں چاہیے کہ کاغذ قلم اٹھائیں اور انکو لکھیں.
*برے خیالات اور اچھے خیالات*
خیالات کی دو قسمیں ہیں. برے خیالات اور اچھے خیالات.
خراب، برے، غفلت آمیز، کفر آمیز خیالات اور وہ خیالات جو کہ غفلت کا موجب ہوتے ہیں انکو اپنے سے دور کرنا لازم ہے؛ لیکن وہ خیالات جو ہمیں جوش، حرکت دلاتے ہیں اور محبتِ خدا کی طرف کھینچ کر لاتے ہیں اور ہمیں خدا سے نزدیک کرتے ہیں اور اسی طرح ایک کے بعد ایک لطف و کرم الہی میں غورفکر کریں اور انکو ایک کاغذ پر لکھ لیں.
*محبت خدا تک کیسے پہنچیں؟*
ملا احمد نراقیؒ اپنی کتاب میں فرماتے ہیں: اگر آپ محبتِ خدا تک پہنچنا چاہتے ہو تو اسکے علاوہ کوئی راستہ نہیں ہے کہ اس چیز کو درک کرو کہ خداوند متعال کا ہاتھ کہاں اور کس جگہ تیری زندگی میں موجود تھا. خداوند کریم کی نعمات کو اپنے جسم و جان اور روح میں اور پھر اپنے اردگرد دیکھو. کہ کیسے تمہاری پرورش ہوئی! کیسے بڑے ہوئے! کیسے یہاں تک پہنچے!
جب آپ خدا کے ساتھ ان سب پر تبادلہ خیال کرتے ہیں، تو تدریجاً محبتِ خدا تیرے دل میں داخل ہوگی اور دنیا کی محبت اور غیرِ خدا کی محبت تیرے دل سے خارج ہوگی لذا سابقہ واقعات بہت زیادہ مدد کرنے والے ہیں.
*خدا کی معرفت اور شناخت کیساتھ حمد الہی بجا لانا لازمی ہے*
«اَلْحَمْدُ لِلَّہِ الَّذِی لَمْ یَتَّخِذْ صَاحِبَۃً وَلَا وَلَدا وَ لَمْ یَکُنْ لِہُ شَرِیْکٌ فِی المُلکِ وَ لَمْ یَکُنْ لَہُ وَلِیٌّ مِنَ الذُّلِّ وَ کَبِّرْہُ تَکْبِیْرَا» پھر ان جملوں کیساتھ خداوند متعال کی معرفت اور شناخت کیساتھ حمد کرتے ہیں. ایک دفعہ آپ تسبیح اٹھاتے ہیں اور الحمد للہ و شکر للہ پڑھتے ہیں؛ لیکن حمدِ خدا کو کس لئے بجا لائیں؟
حمدِ خدا اس وقت حقیقت میں تبدیل ہوتی ہے جب خداوند متعال کو صاحبِ حق جانو اور اسکی صفات کو نظر میں رکھو. مثلاً اس عبارت میں«لَم یَتَّخِذْ صَاحِبَۃً وَلَا وَلَدا» موجبات حمد الہی کو بیان کیا گیا ہے. ایسا خدا ہے جسکی بیوی اور بچے نہیں ہیں. سورہ توحید میں نیز پڑھتے ہیں« لم یلد و لم یولد» یعنی نہ اسکا کوئی بیٹا ہے اور نہ وہ کسی کا بیٹا ہے! خداوند متعال کی ذات ایسی بسیط، مجرد اور مقدس ہے جسکی وصف بیان نہیں کی جا سکتی. «اللہ اکبر» کی تشریح میں فرمایا گیا ہے: «اللہ اکبر من ان یوصف»؛ یعنی خداوند اتنا بزرگ و برتر ہے کہ اسکی بزرگی کو بیان کیا جا سکے. یہ کیسی قدرت و عظمت ہے کہ اسکا کوئی فرزند و عیال اور شریک نہیں ہے اور وہ کسی کا محتاج بھی نہیں ہے. چونکہ خود تمام مدد و امداد کا دینے والا ہے! جب انسان صفات خدا اور معارف خدا کے دریا میں غوطہ زن ہوتا ہے تو مشاہدہ کرتا ہے کہ یہاں پر عقل کی رسائی ممکن نہیں ہے اور انسان خداوند متعال کی عظمت اور بزرگی کے سامنے سر تسلیم خم کرتا ہے. جب ایسی عظیم اور بزرگ ذات موجود ہو تو اس باعظمت ہستی کے سامنے «الحمد للہ» کہ سکتے ہو؛ لیکن معرفت کے بغیر «الحمد للہ» کہنا یہ کیسی حمد ہے!
«اَلْحَمْدُ لِلَّہِ الَّذِی لَمْ یَتَّخِذْ صَاحِبَۃً وَلَا وَلَدا وَ لَمْ یَکُنْ لِہُ شَرِیْکٌ فِی المُلکِ»، خداوند متعال کے تمام ملکوں میں اسکا کوئی شریک نہیں ہے اور یکتا و تنہا ہے مالک بھی ہے ملک بھی ہے. «وَ لَمْ یَکُن لَہُ وَلِیٌّ مِنَ الذُّلِّ»؛ آپ فرض کریں آپ نے ایک اچھے دوست کے بجائے ایک برا دوست منتخب کر لیا اور پھر اسے ترک کر دو. کیا خداوند متعال کے لئے بھی ایسی مثال دی جا سکتی ہے.! یعنی خداوند نے اپنا دوست و ولی ذلت سے لیا ہو! اصلا خدا کو ایسے دوست کی ضرورت ہی کہاں ہے جو اسکی مدد کرے یا یا اسکا دوست بن کر رہے(خدا ان چیزوں سے بے نیاز ہے). چہ برسد ایسا دوست کہ جو اھل ذلت و معصیت و غفلت ہو.
یہ جنبہ بشری کا موضوع تھا. بشر کو بیوی،بچوں اور باپ کی ضرورت ہوتی ہے.انسان کو معاملات میں شریک و شراکت کا محتاج ہوتا ہے. اور یہی انسان برے دوستوں کی آفات میں مبتلا ہے لذا آخر میں کیا کہنا چاہیے؟ «وَ کَبِّرْہُ تَکْبِیرا.» کہنا چاہیے؛ یعنی خدا کو بزرگ و برتر سمجھو سب مل کر تین مرتبہ کہیں «اللہ اکبر»
*و صلی اللہ علی محمد و آلہ الطاہرین.*