حضرت آیت اللہ کمیلی خراسانی حفظہ اللہ کا خطبہ شعبانیہ کی شرح کے حوالے سے خطاب
*حصہ دوم*
*بسم اللہ الرحمن الرحیم و بہ نستعین*
حضورِ اکرم صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم نے فرمایا: ماہِ رمضان، خدا کا مہینہ ہے؛ با برکت ، رحمت اور مغفرت والا مہینہ جو مسلمانوں کی جانب آ رہا ہے.اس مہینے کی اہمیت کو درک کریں. یہ مہینہ سال کے باقی مہینوں سے بہتر و برتر ہے.اس ماہ کے ایام باقی ایام سے اور اسکی راتیں باقی مہینوں کی راتوں سے افضل ہیں. اسکے لمحات بہترین لمحات ہیں. روزہ دار مومنین و مومنات اس مہینے میں خدا کے مہمان ہیں. اور خداوند متعال اس ماہ میں انکو اپنی نعمتوں سے نوازتا ہے.
آپؐ نے فرمایا : روزے دار کا سانس لینا تسبیح ہے. اسکا سونا عبادت ہے. روزے دار کا عمل قبول ہے.اسکی دعا مستجاب ہے. پھر فرمایا: روزے داروں کو چاہیے کہ وہ خداوند متعال سے سوال کریں اور انکا سوال پاکیزہ دل، سچا اور خلوصِ نیت سے ہونا چاہیے.
اس مہینے میں دنیاوی حاجات کا سوال خدا سے نہیں کرنا چاہیے؛ انکا سوال«أن یُوَفِّقکم لِصِیامِہِ» ہونا چاہیے. تاکہ انکا روزہ کمال تک پہنچے؛ وہ بھی ایسا روزہ جو خداوند متعال کی بارگاہ میں قابلِ قبول ہو.
چونکہ ممکن ہے ایک گناہ بھی نہ کیا ہو . لیکن انسان ایک اخلاقی برائی کا مرتکب ہو اور اسکا روزہ قبول نہ ہو. خوب غور کریں؛ میں چاہتا ہوں ایک فقہی مسئلہ کی طرف اشارہ کروں؛
*قبولیت کے مقام کی تعریف اور تکلیف کا ساقط ہونا*
در حقیقت احکامِ الہی اور واجباتِ دینی کے دو مراتب ہیں.
پہلا مرتبہ قبولیت اور دوسرا حکم کا ساقط ہونا ہے. حکم کا ساقط ہونا یعنی یعنی ایک بزرگ انسان تشریف لاتے ہیں اور آپکو ایک حکم دیتے ہیں مثال کے طور پر آرمی چیف ایک سپاہی سے کہتے ہیں کہ فلاں کام انجام دو. ایک دفعہ وہ سپاہی اس کام کو انجام دیتا ہے اور بات ختم. لیکن دوسری مرتبہ وہ قبولیت کے مقام تک پہنچنا چاہتا ہے یعنی کیا مطلب؟ یعنی یہ سپاہی کوشش کرتا ہے کہ آرمی چیف نے جو کام میرے ذمے لگایا ہے وہ دوسرے سپاہیوں کی نسبت اچھے اور بہترین طریقے سے انجام دوں. یعنی یہ سپاہی چاہتا ہے کہ کام کو ایسے انجام دے کہ کمانڈر اسکی تعریف کرے اور کہے کہ ان ہزارسپاہیوں میں سے اس سپاہی نے کام کو اچھے طریقے سے انجام دیا ہے. اب سوال یہ ہے کہ کونسا کام اچھا ہے؟ کیا ہم فقط ظاہری نماز پڑھیں اور بس.اور ہمارا ذھن دکان، گھر، اور اِدھر اُدھر گھومتا رہے. کیا ایسے ہے؟ ہاں! میں یہ نہیں کہ رہا کہ نہیں..چونکہ یہ شخص کم از کم بے نمازی انسان سے بہتر ہے، وہ بالکل نماز ہی نہیں پڑھتا اور مسجد بھی نہیں جاتا. آپ ایک دفعہ نماز کو انہیں ظاہری رکوع، سجود اور اعمال ظاہری سے انجام دینا چاہتے ہیں. جبکہ ایک دفعہ آپ نماز کو حضورِ قلب سے ادا کرنا چاہتے ہیں. میں چاہتا ہوں میری فکر اور سوچ کسی اور جگہ نہ ہو بلکہ خدا کے پاس ہو. پھر آپ بتائیے خداوند قدوس ان میں سے کونسی نماز کو قبول کرے گا؟ پہلی یا دوسری؟ اس بارے میں روایات ذکر ہوئی ہیں کہ ملائکہ اس نماز کو مسجد سے آسمان کی طرف لے جاتے ہیں. آسمان کے ملائکہ کہتے ہیں اسے یہاں مت لائیے! اس نماز کو صاحبِ نماز کے سر پر ماریں.
یہ کیسی نماز ہے جس میں اسکی فکر مسلسل پیسے اور مالِ دنیا کی طرف تھی. سمجھ گئے؟ چونکہ بعض اوقات انسان کے فراموش کئے ہوئے تجارتی حساب کتاب نماز میں یاد آتے ہیں. میرے عزیز یہ کیسی نماز ہے؟ سمجھ گئے؟
پس ہمیں چاہیے کہ دوسرے مرتبہ والے حکم کو انجام دیں. میرے عزیز. اس مرتبہ دوم میں مشقت اور سختی نہیں ہے؛ زحمت نہیں ہے؛ اس میں عشق ہے؛ اقبال ہے؛ خدا کی طرف توجہ ہے؛ یہ نماز عارفانہ نماز ہے؛ روزہ، زکات، خمس اور خانہ خدا کا حج بھی نماز کی طرح ہے ایک حاجی حج پہ جاتا ہے اور فقط کعبہ کے در و دیوار کا طواف کرتا ہے لیکن دوسرا شخص ایسے نہیں بلکہ دل کیساتھ طواف کرتا ہے. ان میں سے کونسا بہتر ہے؟ «أن یُوَفِّقکم لِصِیامِہ» سے مراد وہ روزہ ہے جو حقیقتاً روزہ ہو؛ پس خداوند متعال سے طلب کریں کہ ہم ایسا ہی روزہ رکھیں؛
«وَ تِلاوۃَ کتابِہِ» قرآن کو توجہ اور ترجمہ کیساتھ پڑھیں اور کم از کم روزانہ ایک سپارہ(جزء) پڑھنا چاہیے.
«فأِنّ الشَّقی مَن حُرِمَ غفرانُ اللَّہِ فی ھذا الشَّھرِ العَظیم» پیغمبر اکرمؐ نے فرمایا : بدبخت ترین انسان وہ ہے جو ماہِ رمضان کو درک کرے لیکن خدا کو خود سے راضی نہ کر سکے. ایسا بدبخت جو مغفرتِ الھی، نظرِ خدا اور قربِ خدا سے محروم ہو گیا ہے.
آج رات اس خطبے کے اگلے حصے کی تفسیر کرتے ہیں.
«وأذکُروا بِجُوعِکُم و َ عَطَشِکُم فیہ جوعَ یومِ القِیامَۃِ وَ عَطَشَہُ»؛ یہ میں نہیں کہ رہا بلکہ ہیغمبرؐ فرما رہے ہیں. خوب توجہ کریں.آپؐ فرماتے ہیں: جب ماہ رمضان میں روزہ دار بھوکے اور پیاسے ہوں تو انکو چاہیے کہ روزِ قیامت کو یاد کریں؛ چونکہ ہم قیامت کے دن بھوکے اور پیاسے ہونگے. یہاں پر حاضرین سے ایک سوال کرنا چاہتا ہوں کہ کیا کسی مہینے یا سال یا اس سال یا پچھلے میں ایسا ہوا ہے کہ جب آپ کو سخت بھوک اور پیاس لگی ہو اور آپکو پانی اور کھانے کی یاد نہ آئے بلکہ قیامت کی یاد آ جائے؟ وہ دن یاد آ جائے جو بہت زیادہ سخت دن ہوگا، جس دن پروردگار حساب لے گا، عدلِ الہی کا دن ہے؛ کیا کبھی ایسا ہوا ہے کہ قیامت کے دن کی بھوک اور پیاس یاد آ جائے؟ اگر ایسا کوئی بندہ ہے تو وہ ہاتھ کھڑا کرے اور کہے کہ جی ہاں، میں نے ایک دفعہ ظھر کے وقت گریہ کیا اور قبر کی پہلی رات کو یاد کیا، اپنی آخرت کو یاد کیا،برزخ کو یاد کیا، قیامت کو یاد کیا، جھنم اور جنت کو یاد کیا، کیا کبھی ایسا ہوا ہے؟ اب یہ حکمِ پیغمبرؐ ہے میرا حکم نہیں!! آپؐ فرماتے ہیں آپ قیامت کی فکر کریں.
«وَ تَصَدَّقُوا عَلی فُقَرَائِکُم وَ مَساکَینِکُم»؛ بعض لوگ روزہ داروں پر اعتراض کرتے ہیں اور کہتے ہیں کہ یہ لوگ ہمیشہ مسجد، عبادت، نماز و روزہ اور اسی طرح بقیہ واجبات انجام دیتے رہتے ہیں. انہوں نے کَبھی بھی فقیروں اور محرومین کی مدد نہیں کی. ان جوانوں کی مدد بھی نہیں کرتے جنکی شادی بعض اقتصادی مشکلات کی وجہ سے نہیں ہو پا رہی ہے.
میں آپکی خدمت میں عرض کروں کہ عزیزان یہ خطبہ پیغمبر اکرمؐ کی سفارشات ہیں. آپؐ فرماتے ہیں: روزے کے ساتھ صدقہ بھی دو؛ روزے کے ساتھ ساتھ بھوکوں کو کھلاؤ، ننگوں کو کپڑے پہناو. رسول اکرمؐ فرماتے ہیں : روزے کے ساتھ ساتھ ان کاموں کو بھی انجام دو .اس وقت آپ فقط نماز ، روزے اور مسجد کی بات کرتے ہیں؟
بعض لوگ عمل کرنے والے نہیں ہیں. فقط اپنا اُلو سیدھا کرنا چاہتے ہیں. لیکن جب ہم بزرگانِ دین کی سفارشات کی طرف نظر کرتے ہیں تو سب یہی حکم دیتے ہیں کہ معاشرے کے محروم طبقہ کی فکر کریں فقراء اور مستضعفین کا خیال رکھیں.
*ماں باپ اور سفید ریش بزرگوں کے احترام کی اہمیت*
«وَ وَقِّروا کِبارَکُم»؛ جب کسی ایسے بزرگ کو دیکھو جو عمر میں آپ سے بڑا ہے تو اسکا احترام کرو؛ آپ حتماً اسے سلام کریں. ہمارے عزیز جوان بوڑھوں اور بزرگوں سے بہت زیادہ استفادہ کر سکتے ہیں. چونکہ انکے تجربات زیادہ ہیں انہوں نے زندگی کے نشیب و فراز کو دیکھا ہوا ہے. ہمیں چاہیے کہ بزرگوں کے سامنے زانو ادب تہ کرنا چاہیے. ہمیں حتماً ان لوگوں کی زیارت کو جانا چاہیے جو سفید ریش اور بزرگ ہیں؛ انکے علم، دانش اور انکے تجربات سے استفادہ حاصل کرنا چاہیے.
لذا پیامبرؐ اسلام فرماتے ہیں: «وَ وَقِّرُو کِبارَکُم»؛ اپنے ماں باپ کی بے احترامی نہ کرو؛ اپنے چچا، ماموں، فیملی سے جو آپ سے بڑے ہیں، آفس میں، کسی محفل میں، جو گلی سے گزر رہا ہے اور آپ سے عمر میں بڑا ہے جاؤ انکو سلام کرو چونکہ یہ پیغمبر اکرمؐ کا دستور ہے. موجود جوان اس طرح اپنے بزرگوں کا احترام نہیں کرتے اور انکے تجربات سے فائدہ نہیں اٹھاتے جس طرح پرانے زمانے کے جوان استفادہ کرتے تھے. ابھی تو جوان صرف اپنے قوتِ بازو پر ناز کرتا ہے؛ اسکا باپ جو کہ عصا کے سہارے چلتا ہے اسکی طرف توجہ نہیں کرتا اور نہ اسکی خدمت کرتا ہے؛ بچے کو جانا چاہیے اور باپ کی احوال پرسی کرنی چاہیے. کیا ہم یورپی ہیں؟ ہمیں کہا جاتا ہے کہ چونکہ وہ اہل مسجد، عبادت، دین اور پیامبرؐ کی تعلیمات پر عمل نہیں کرتے(اس لئے کامیاب ہیں) وہ صرف دو دن کی زندگی کے چکر میں ہیں. یہاں تک کہ خدا جانتا ہے میں نے ایک کتاب میں پڑھا ہے کہ ایک جوان نے اپنے باپ کو ہسپتال میں بیچ دیا اور وہیں چھوڑ دیا. یعنی خود ہسپتال سے باہر آ گیا اور باپ کو فروخت کر دیا!! یعنی کیا بیچ دیا؟ یعنی اسکے گردے، جگر اور باقی اعضا کو نکال لیتے ہیں. یعنی ان سب کی قیمت لگوائی اور بیچ دیا. پھر اسکے جسم کو وہیں چھوڑا اور ہسپتال سے نکل گیا. ان میں سے بعض لوگ ایسا کرتے ہیں. انکو فقط پیسہ چاہیے. لیکن عزیزان من! ہم اور آپ کیسے؟ اسلام کے دو جنبے ہیں ایک جنبہ مادی ہے اور دوسرا معنوی، ہمارے لئے معنویت بہت اہمیت کی حامل ہے. لذا ہمیں بہت احتیاط کرنی چاہیے تاکہ خدا نہ کرے ہم اپنے کسی بزرگ کی بے ادبی یا بے احترامی کریں.
قرآن کریم میں ارشاد ہوتا ہے: «فَلَا تَقُلْ لَھُمَا أُفٍّ» اپنے ماں باپ کو أف تک نہ کہو. یعنی ایک حرف بھی اوپر نہ بولو؛ یعنی اپنی آواز کو بلند نہ کرو.
«وَلَا تَنْھَرْھُمَا» اس آیت کی تفسیر میں لکھتے ہیں کہ جب بیٹی یا بیٹا اپنے ماں باپ کے سامنے بیٹھے ہوں اور بات کرنا چاہیں، سوال پوچھنا چاہتے ہیں یا کوئی بات کرنا چاہتے ہیں اپنی آواز کو مناسب رکھیں اور انکی آواز، ماں باپ کی آواز سے دھیمی ہونی چاہیے. یہ قرآن کہ رہا ہے میں نہیں کہ رہا.
«وَلَا تَنْھَرْھُمَا»؛ یعنی ماں باپ کے سامنے اونچی آواز سے نہ بولو. ایک روایت میں آیا ہے کہ اگر تجھ پر ظلم بھی کریں پھر بھی تحمل کرو؛ کیونکہ وہ تمہارے ماں باپ ہیں.
امام زین العابدین علیہ السلام رسالہ حقوق میں فرماتے ہیں: تیرا وجود، تیرے باپ کی بدولت ہے. اگر تیرا باپ نہ ہوتا تو، تُو بھی نہ ہوتا؛ اگر ماں نہ ہوتی تو، آپ بھی نہ ہوتے. پس وہ تیرے وجود کا منشاء ہیں. پس اگر تجھ ڈانٹا یا مارا یا تجھ پر ظلم کیا تو تجھے تحمل کرنا چاہیے، ماں باپ کے ساتھ دو دو ہاتھ نہیں کرنا چاہیے. ماں باپ کا مقام اتنا بلند و بالا ہے کہ قرآن مجید میں خدا کے ساتھ ماں باپ کا تذکرہ آیا ہے. اس سے بڑھ کر اور کیا بلند مقام ہوگا؟ اگر چاہتے ہیں تو شکر کی آیت کو قرآن سے پیدا کریں
عزیز من! «أَنِ اشْکُر لِی وَلِوالِدَیک»؛ «لی» خدا کے لئے ہے اور «ولوالدیک» ماں باپ کے لئے ہے. یعنی خدا کے شکر کو ماں باپ کے شکر کے ہم پلہ قرار دیا ہے. اس سے بڑھ کر اور کیا مقام ہو سکتا ہے؟
«وَ ارْحَمُوا صِغَارَکُم»؛ پیامبر اکرم صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم ایک اور اخلاقی سفارش فرماتے ہیں: بڑوں کو چاہیے کہ وہ بھی اپنے چھوٹوں سے مہربانی اور شفقت سے پیش آئیں. جان لیں کہ انہوں نے ابھی زندگی کے نشیب و فراز کو نہیں دیکھا. وہ بزرگوں جیسے تجربات کے حامل بھی نہیں ہیں. ایک بیٹے کو باپ بنانے میں بہت زیادہ محنت درکار ہوتی ہے. پس بزرگوں کو اپنے بچوں سے لطف و محبت سے پیش آنا چاہیے؛ ان سے عفو و درگزر کرنا چاہیے؛ انکا ہاتھ تھامنا چاہیےتاکہ وہ پختہ ہوں ان شاء اللہ. اور ان حقائق تک پہنچیں جن تک انکے ماں باپ پہنچ چکے ہیں.
«وَ صِلُوا أرحامَکُم»؛ ماں باپ کی خدمت کے بعد صلہ رحم کا مرحلہ ہے. صلہ رحم میں بھی والدین کا پہلا درجہ ہے پھر تدریجاً رشتہ دار شامل ہو جاتے ہیں چونکہ وراثت میں بھی تین طبقات ہیں.
*وراثت کا فقہی حکم*
فقھاء اور مراجع فرماتے ہیں کہ وراثت میں پہلا درجہ والدین اور بچوں کا ہے. اس گروہ میں سے اگر ایک نفر ہی بچ جائے تو وراثت دوسرے گروہ کو منتقل نہیں ہوگی.
دوسرے گروہ میں، بھائی، بہن، آباء و اجداد شامل ہیں
تیسرے طبقے میں، چچا، ماموں، اور انکی اولادیں(ماموں کا بیٹا بیٹی، چچا کا بیٹا بیٹی) فقہاء وارثت کے گروہ کے بارے میں فرماتے ہیں کہ جب تک ایک نفر پہلے گروہ میں سے باقی ہو وراثت دوسرے گروہ کو منتقل نہیں ہوگی اور اسی طرح اگر ایک نفر بھی دوسرے گروہ میں سے موجود ہو تو وراثت تیسرے گروہ تک نہیں پہنچے گی. اگر کوئی شخص پہلے دوسرے اور تیسرے طبقے میں سے نہ ہو اور میت کا کوئی وارث موجود نہ ہو تو یہاں فرماتے ہیں: «الأمام وارث من لا وارث لہ»؛ امام انکا وارث ہے جنکا کوئی وارث نہیں ہوتا.
ہم اس وقت غیبت کے زمانے میں زندگی گزار رہے ہیں اور امام زمانہ عجل اللہ فرجہ الشریف نیز اس وقت حاضر نہیں ہیں تاکہ وہ آئیں اور اس بے وارث میت کے وارث بنیں اور انکے اموال کو اپنے اختیار میں لیں اور پھر اسے بیت المال میں شامل کر کے تقسیم کریں. لذا عصرِ غیبت میں فرماتے ہیں کہ ولی فقیہ، حاکم شرع یا اعلم مجتھد انکے وارث ہیں جنکا کوئی وارث نہیں ہے. یعنی اگر کوئی ایسا شخص اس دنیا سے رخصت ہو جائے تو جتنی اسکی مال و دولت ہوگی وہ ساری مراجع کی تحویل میں دے دی جائے گی. یہ ایک شرعی مسئلہ تھا جو آپ میں خدمت میں عرض کیا ہے. صلوات پڑھیں.
آل پیغمبرؐ دین کے رہبر و پیشوا ہیں
روز محشر اس امت کے شافی ہیں
انکی بارگاہ میں ذلت بھی عزت ہے
انکی راہ میں سختی بھی آسان محسوس ہوتی ہے
انکی محبت، خدا کی محبت کا موجب بنتی ہے
ان سے بغض رنج و فنا کا سرمایہ ہے
اگر تم چاہتے ہو کہ تمہاری دعا مستجاب ہو جائے
تو انکے وسیلے سے دروازہ کھولو
آل محمدؐ کے دامن کو تھام لو
تاکہ تمہارے سارے اعمال قبول ہوں
ہماری زندگی اور موت میں
انکے سوا کوئی کشتی نجات نہیں ہے.
«أِنَّ الْحُسینَ سَفِینَۃُ النَّجاۃِ» اس امت کی کشتی نجات، امام حسینؑ ہیں. آنے والی شب، شب جمعہ ہے جو کہ آپکی زیارت کی رات ہے.
اس عالَم میں آپکے نور سے کوئی جگہ خالی نہ رہے
کیونکہ عالَم امکان میں آپ روح و رواں کی مانند ہیں
جیسے ہی امام حسین علیہ السلام کا نام زبان پہ آتا ہے تو دل پر ہیجانی کیفیت طاری ہو جاتی ہے یہ عشق حسینؑ کی علامت ہے جو ہماری روح و رواں اور دل میں اس نام کیساتھ ملی ہوئی ہے
ہماری آرزو ہے کہ اس جیسی راتوں میں ہم مولا امام حسینؑ کے حرم میں ہوں. اب یہیں سے امامؑ کو سلام ہدیہ کرتے ہیں.
«اَلسَّلامُ عَلَی الحُسینِ وَ عَلی عَلِی بْنِ الْحُسَینِ وَ عَلی اَولادِ الحُسَینِ وَ عَلی اَصْحابِ الحُسَینِ»
*صلوات بر محمد و آل محمد*