حضرت آیت اللہ کمیلی خراسانی حفظہ اللہ کا خطاب، خطبہ شعبانیہ کی شرح میں*
*حصہ اول*
*بسم اللہ الرحمن الرحیم و بہ نستعین*
جیسا کہ آپ جانتے ہیں ماہِ شعبان گزر گیا ہے، ہم شعبان کے مہینے میں صلواتِ شعبانیہ اور مناجاتِ شعبانیہ پڑھتے تھے. رسول اکرمﷺ نے اس ماہ کے آخری جمعہ کے خطبے میں ماہِ رمضان کی خصوصیات اور فضائل بیان فرمائے. البتہ یہ بات ذھن میں رہے کہ ہمارے لئے محال ہے کہ ہم اس خطبے کے مضامین کو ایک ہی رات بیان کر دیں؛ لذا اس خطبے کا ایک حصہ ابھی بیان کریں گے اور باقی خطبہ آنے والی راتوں میں آپکی خدمت میں پیش کریں گے.
«بسماللّهالرحمنالرحیم عَنِ الرِّضَا عَنْ آبَائِهِ عَنْ عَلِیٍّ علیه السلام قَالَ إِنَّ رَسُولَ اللَّهِ صلی الله علیه وآله خَطَبَنَا ذَاتَ یَوْمٍ فَقَالَ: أَیُّهَا النَّاسُ إِنَّهُ قَدْ أَقْبَلَ إِلَیْکُمْ شَهْرُ اللَّهِ بِالْبَرَکَةِ وَ الرَّحْمَةِ وَ الْمَغْفِرَةِ شَهْرٌ هُوَ عِنْدَ اللَّهِ أَفْضَلُ الشُّهُورِ وَ أَیَّامُهُ أَفْضَلُ الْأَیَّامِ وَ لَیَالِیهِ أَفْضَلُ اللَّیَالِی وَ سَاعَاتُهُ أَفْضَلُ السَّاعَاتِ. هُوَ شَهْرٌ دُعِیتُمْ فِیهِ إِلَی ضِیَافَةِ اللَّهِ وَ جُعِلْتُمْ فِیهِ مِنْ أَهْلِ کَرَامَةِ اللَّهِ أَنْفَاسُکُمْ فِیهِ تَسْبِیحٌ وَ نَوْمُکُمْ فِیهِ عِبَادَةٌ وَ عَمَلُکُمْ فِیهِ مَقْبُولٌ وَ دُعَاؤُکُمْ فِیهِ مُسْتَجَابٌ فَاسْأَلُوا اللَّهَ رَبَّکُمْ بِنِیَّاتٍ صَادِقَةٍ وَ قُلُوبٍ طَاهِرَةٍ أَنْ یُوَفِّقَکُمْ لِصِیَامِهِ وَ تِلَاوَةِ کِتَابِهِ. فَإِنَّ الشَّقِیَّ مَنْ حُرِمَ غُفْرَانَ اللَّهِ فِی هَذَا الشَّهْرِ الْعَظِیم»
پیغمبر اکرم صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم، اس خطبے کی ابتداء میں ماہِ رمضان کے فضائل اور اس مہینے کی دوسرے مہینوں پر برتری کو بیان فرماتے ہیں.
آپؐ ارشاد فرماتے ہیں: اے لوگو! جان لو، ایک ایسا مہینہ تمہاری طرف بڑھ رہا ہے جو ماہِ خدا ہے اور اپنے ساتھ برکت، رحمت اور مغفرت لے کر آ رہا ہے.«شَھرٌ ھوَ عندَ اللہِ أَفضَلُ الشُّھور»؛ یہ مہینہ خدا کے نزدیک، سال کے بارہ مہینوں میں سب سے زیادہ بالاتر اور برتر مہینہ ہے.
«وَ أَیَّامُہُ أَفْضَلُ الأَیَّامِ»؛اس مہینے کے ایام کو مسلمان غنیمت سمجھیں چاہے روزہ دار ہوں یا روزہ دار نہ ہوں، چونکہ آپکی زندگی میں سے یہ سال کے بہترین ایام شمار ہوتے ہیں.
«وَ لَیَالِیہ أَفْضلُ اللَّیَالِی»؛ اس طرح اس ماہ کی راتیں آپکے سال کی بہترین راتوں میں سے ہیں.
«وَ سَاعَاتُہُ أَفضَلُ السَّاعَاتِ»؛ سب سے پہلے دن رات کے بارے میں فرماتے ہیں؛ پھر دن و رات کے چوبیس گھنٹوں میں سے ہر ایک گھنٹہ کو بیان فرماتے ہیں. ہر وہ لمحہ جو گزرتا ہے وہ دوسرے لمحے اور گھنٹے کی نسبت زیادہ فضیلت اور ارزش کا حامل ہوتا ہے.
«ھُوَ شَھْرٌ دُعِیتُمْ فِیہِ أِلَی ضِیَافَۃِ اللَّہِ»؛ اس ماہ کا میزبان کون ہے؟ کیا خداوند متعال کے علاوہ کوئی اور ہو سکتا ہے ؟ چونکہ روزہ دار، روزے کو خدا کی خاطر رکھتا ہے؛ اسکی نیت، الہی نیت ہے. خدا بھی اچھے طریقے سے اسکی ضیافت فرماتا ہے.
«وَ جُعِلتُم فِیہِ مِنْ أَھلِ کَرَامۃِ اللہِ»؛ آپ اس مہینے میں کرامات الہی سے فیض یاب ہونگے.
«أَنْفَاسُکُم فِیہِ تَسْبِیح» روزہ دار کا ہر سانس تسبیح شمار ہوتا ہے. چونکہ جب سحر کے وقت بیدار ہوتا ہے اور مغرب تک، روزے کی نیت کرتا یے، تو وہ روزہ کی حالت میں رہتا یے. لذا بہت سی چیزوں سے پرہیز کرتا ہے، جن سے دوسرے انسان پرہیز نہیں کرتے، اور پیٹ، آنکھیں اور بدن کے دوسرے اعضاء کو حرام سے بچایا ہے. یہ ایک قسم کی لازمی ریاضت ہے. اس نیت کے مدمقابل کہ روزہ دار ایسے مخلصانہ انداز میں خود کو اپنے خدا کے لئے آمادہ کرتا ہے.
اس وقت وہ کیا کرتا ہے ؟ ہر روزے دار کی سانسیں، اگرچہ تسببیح کی زبان میں بھی نہ کہے، پھر بھی اسکے لئے سبحان اللہ لکھا جاتا ہے.
« وَ نومُکَم فِیہِ عِبَادۃٌ»؛ اگر روزہ دار روزہ کی حالت میں سو جاتا ہے تو اسکا یہ سونا اسکے بقیہ اوقات جس میں وہ روزہ سے نہیں تھا فرق کرتا ہے چونکہ صائم نیت الہی سے سوتا ہے اسی بنا پر اسکا سونا بھی عبادت شمار ہوتا ہے.
«وَ عَمَلُکُمْ فِیہِ مَقْبُولٌ»؛ پس روزہ دار اس خلوصِ نیت سے جو بھی شایستہ عمل خدا کے لئے انجام دے گا وہ مورد قبول واقع ہوگا. اب سوال یہ ہے کہ اس صائم کے اعمال کیا ہیں؟ پیغمبر اکرمؐ اس بارے میں بعد میں توضیح دیں گے کہ روزے دار کو اس ماہ میں کیا کرنا چاہیے. مثال کے طور پر ایک جگہ فرماتے ہیں.«صِلُو أَرْحَامَکُم»؛ اپنے رشتہ داروں کیساتھ صلہ رحم کرو چاہے وہ ماں کی طرف سے رشتہ دار ہوں یا باپ کی طرف سے؛ یعنی فرض کریں کہ اگر آپ ماہِ رمضان سے پہلے اپنے چچا، ماموں، کزن، بھائی یا باپ کیساتھ ناراض ہیں تو آپ کو چاہیے اب صلہ رحم کریں.
«وَ عَمَلُکُم فِیہِ مَقْبُولٌ»؛ صلہ رحم بھی عمل صالحہ کی ایک قسم ہے جسے انجام دیتے ہیں. یعنی خود روزہ صلح کا سبب بن جاتا ہے چونکہ جس فضا میں آپ سانس لے رہے ہیں وہ ایک الہی اور ملکوتی فضا ہے لذا ایسا نہیں ہو سکتا کہ کسی کے لئے اپنے دل میں کینہ رکھو اور پھر یہ بھی کہو کہ میں روزے سے ہوں.ایک عورت پیامبرؐ کے حضور میں غیبت کر رہی تھی توہین اور بدزبانی کر رہی تھی؛ پیغمبرؐ نے فرمایا : اس لئے کھانا لے کر آو تاکہ کھا لے وہ کیسی روزہ دار ہے؟ وہ روزہ جس میں زبان محفوظ نہ ہو وہ کیسا روزہ ہے.
«وَ دُعَاؤُکُم فَیہِ مُسْتَجَابٌ»؛ بہت سی دعائیں ماہِ رمضان میں ذکر ہوئیں ہیں جیسے دعائے ابو حمزہ ثمالی کہ جو سحر کے وقت پڑھنی چاہیے. آپ نے اس دعا کو امامؑ سے نقل کیا ہے.تمام دعائیں جو ہم مفاتیح الجنان میں پڑھتے ہیں وہ ہمارے آئمہ اور رھبرانِ دین سے ہم تک پہنچی ہیں. یہ وہ معارف اور مطالب ہیں جو معصوم کے قلب اور دل سے ہم تک پہنچے ہیں. وہ امام جن کے پاس معارفِ الہی کا سمندر موجود ہے. جب آپ ان دعاؤں کو پڑھیں گے تو جان لیں گے ان دعاؤں میں سب کچھ موجود ہے؛ اس دعا میں ہم احکام، اخلاق اور عرفان کو دیکھتے ہیں؛ جو چیز چاہتے ہو وہ سب کچھ ان دعاؤں میں موجود ہے.کچھ ایسی دعائیں بھی ہیں جن میں فلسفہ، الھیات اور الہی علوم موجود ہیں. ایک صاحب معرفت شخص اگر چاہے تو ان دعاؤں میں سے بہت سے علوم کشف کر سکتا ہے.
پس روزہ دار کو اس مہینے میں صاحبِ دعا ہونا چاہیے؛ خدا بھی اسکی طرف توجہ کرتا ہے؛ اسکی دعاؤں کو قبول فرماتا ہے آپ ایسا کبھی نہ سوچیں کہ دعا کا مطلب یہ ہے کہ مثال کے طور پر آپ بیٹھ جائیں اور دعا پڑھیں اسکے بعد فرض کریں کہ دنیاوی، مادی حاجات، رزق و روزی، کاروبار و نوکری ان چیزوں کو خدا سے طلب کریں.بعض صاحب اولاد نہیں ہیں وہ اولاد کی دعا مانگیں؛ بعض لوگ مریض ہیں وہ شفا چاہتے ہیں؛ بعض لوگوں کو جاب نہیں ملتی وہ اس لئے اس دعا کو پڑھے؛ نہ آقا .ایسا نہیں ہے چونکہ ماہِ رمضان، خدا کا مہینہ ہے.
یعنی آپ کو اس مہینے میں خدا سے دوستی برقرار کرنی چاہیے خدا کیساتھ عارفانہ اور عاشقانہ طریقے سے نجویٰ کریں. یعنی خدا کو اپنی ذات کے لئے چاہیں؛ خدا بہتر جانتا ہے کہ جب اس کا بندہ اسکے گھر آیا ہے تو وہ اسکے ساتھ کیا کرے. آپ تو خدا کی ذمہ داری کو معین نہیں کر سکتے؛ جب وہ آپکی تمام چیزوں سے باخبر ہے؛ اصلاً وہ کون ہے جو تجھے دنیا میں لایا؟ آپ کہاں تھے؟ تھوڑی فکر کریں. اپنے اصلی نطفے کی جانب لوٹ جائیں؛ خداوند متعال نے اسی ہاتھ کیساتھ ہمیں پیدا کیا اور یہاں لایا جس سے اس نے ہمیں مکمل کیا تھا. اتنے زیادہ مراحل کے بعد یہان تک لایا کہ اب یہاں پر تشریف فرما ہیں. اب آپکا وزن ساٹھ، ستر کلو ہوچکا ہے درحالیکہ آپ لاکھوں سپرموں میں سے ایک سپرم تھے پھر آپکو شکل مہیا کی گئی اسکے بعد ایک با وزن جسم میں تبدیل ہو گئے.
کیوں اپنی اصلی حالت کو فراموش کرتے ہو؟ کیوں اپنی آخری حالت کو بھول جاتے ہو؟ کہ آخر کہاں پر جاؤ گے؟ پس خدا کو خدا کے لئے چاہیں. جب خدا کے ہاتھ کو نعمتوں اور خلقت میں دیکھتے ہیں پھر اسکے محضر میں شرمندگی ہوتی ہے کہ اس سے حاجت طلب کریں. خدا ہماری ہر چیز سے آگاہ و باخبر ہے؛ وہ اپنے کاموں کو بخوبی انجام دیتا ہے؛ ضروری نہیں ہے کہ ہم خدا کو یاد دلائیں کہ وہ کیا کرے.
پس یہ دعا ایسی دعا ہے جیسے ایک دوست دوسرے دوست کو بلاتا ہے. ایک دوسرے کیساتھ بیٹھ جاتے ہیں اور دوستی اور عشق کی باتیں کرتے ہیں. ہمیں چاہیے کہ خدا کیساتھ ایسے بن کر رہیں.اس دعا کے مدمقابل اجابت وہی معنوی کشش ہے.
جب تک معشوق کی جانب سے کشش نہ ہو
عاشق کسی مقام تک نہیں پہچتا
اگر عشقِ الہی آپکے دل کے اندر سما جائے تو اس وقت ایک لمحہ کے لئے اس ذاتِ اقدس الہی سے جدا نہیں ہو سکتے.
ایک دفعہ میں حرم امام رضا علیہ السلام کی زیارت سے مشرف ہوا آپکے سر کی جانب سے کھڑا ہوا اور اپنے حال میں گم تھا؛ اچانک میں دیکھا ایک شخص میرے پہلو میں کھڑا ہے اور اپنے ہاتھوں کو نماز کے قنوت کی مانند اٹھائے ہوئے ہے اور خدا کیساتھ دعا میں مشغول تھا میں نے اسکے ہاتھ میں کتاب نہیں دیکھی اور وہ اسی طرح مسلسل دعا کو عربی جملات میں پڑھ رہا تھا. اس سے معلوم ہوتا ہے کہ وہ ان الفاظ کو خود سے ایجاد کر رہا تھا. وہ عربی ادب کو بھی جانتا تھا اور اسی طرح پے در پے بول رہا تھا اور ہم بھی اسکی دعا سے لذت حاصل کر رہے تھے. وہ دعا کو مسلسل اور جملہ جملہ ادا کر رہا تھا.اتنا نے دعا کو بہت طول دیا. کیا کبھی ایسا ہوا ہے کہ آپ کے لئے بھی دعا کے دوران ایک روحانی اور معنوی کشش پیدا ہو جائے کہ آپ دعا میں اتنے مشغول ہوں کہ آپ کو پتہ ہی نہ چلے اور دو گھنٹے گزر جائیں.
کہتے ہیں کہ پرانے زمانے میں امیر المومنینؑ کے حرم میں جب سحر کا وقت ہوتا تھا تو ستر نفر حرم کے ہر کونے میں کھڑے ہیں اور اور قنوت میں دعائے ابوحمزہ ثمالی کو حفظی پڑھ رہے ہیں. کیا آپ جانتے ہیں دعائے ابو حمزہ ثمالی کتنے صفحات پر مشتمل ہے؟ بہت زیادہ ہے .شاید بیس صفحے ہو جائیں. انہوں نے دعا میں، قنوت میں اس دعا کو حفظ کیا ہوا تھا اور اسی حفظ کے ساتھ پڑھتے تھے. دعائے کمیل کو حفظ کیساتھ پڑھتے تھے. اب وہ کہاں چلے گئے؟
ہم اس مادی دنیا میں گرفتار ہیں؛ اپنی زندگی کی مشکلات میں گرفتار ہیں. آخرکار گیارہ مہینوں کے بعد، ماہِ رمضان ،ماہِ خدا آن پہنچا ہے. کیا ہمیں تھوڑا سا وقت خدا کو نہیں دینا چاہیے؟
«فَأسأَلُوا اللَّہَ رَبَّکُم بِنِیَّاتٍ صَادِقَۃٍ وَ قُلُوبٍ طَاھِرَۃٍ أَن یُوَفِّقَکُمْ لِصِیَامِہِ وَ تِلاوَۃِ کِتَابِہِ»؛ اپنے پروردگار سے سچی اور صاف نیت اور پاک دلوں کیساتھ اور اندرونی نجویٰ کے ذریعے سوال کرو اور اس سے چاہو کہ«أَن یُوَفِّقَکُم لِصِیامِہِ»؛ اس مہینے میں آپکی توفیقات میں اضافہ فرمائے اور آپ خدا کے روزے کو مکمل کر سکیں. «وَ تِلَاوۃِ کِتابِہ» اور کتابِ خدا کی تلاوت کریں. پھر پیغمبر اکرم صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم نے فرمایا کہ اس مہینے میں قرآن کی ایک آیت کی تلاوت کرنا ختم قرآن کے برابر ہے. کون عقلمند اتنے ثواب سے چشم پوشی کرے گا؟ جب خداوند منّان ایسے لمحات کو ہمارے لئے لایا ہے تو ہم کیوں خواب غفلت میں سوئے رہیں اور ان لمحات سے غفلت برتیں؟ پس قرآنی محفلوں کا انعقاد کرنا چاہیے. کم از کم روزانہ ایک سپارہ(جزء) کی تلاوت تفسیر کیساتھ کرنی چاہیے.
«فَأِنَّ الشَّقِیَّ مَنْ حُرِمَ غُفْرَانَ اللَّہِ فِی ھذَا الشَّھْرِ الْعَظِیمِ»؛ رسول خدا فرماتے ہیں بدبخت ہے وہ شخص جو اس ماہ میں خداوند متعال کی مغفرت سے محروم ہو جائے. ایک سال منتظر رہیں کہ ایک مہینہ آئے جس میں مغفرت ہو جائے لیکن جب وہ ماہ آئے تو اس ماہ میں جو کچھ خداوند متعال نے اپنے بندوں اور صائمین کے لئے مغفرت الہی میں سے قرار دیا ہے اس سے انسان رہ جائے اور (کھجور درخت پر ہی رہ جائے) اور ہم ان مغفرت اور خدا کی خصوصی نظرِ کرم جو اس نے اپنے خالص بندوں کے لئے قرار دی ی
ہے سے بھرہ مند نہ ہو سکیں اور محروم ہو جائیں.
ہم شقاوت میں مبتلا ہیں اور اپنی اصلاح نہیں کر سکتے؛ اپنے آپکو درست نہیں کر سکتے؛ اور خود کو اس مہینے کیساتھ منطبق نہیں کر سکتے..
آپ ایک ایسا گروہ ہیں جو اس وقت یہاں تشریف فرما ہیں لیکن انہی لمحات میں کئی افراد گناہوں کی محفلوں میں شریک ہیں عیش و عشرت کے عشرتکدوں میں یا شراب کی محفلوں میں مست ہونگے. اور اسکے علاوہ باقی کئی گناہ ہیں جن میں لوگ مبتلا ہیں.لیکن خداوند متعال نے آپکو توفیق دی ہے کہ اسکے گھر آئیں یہاں بیٹھیں؛ آپ دیکھیں یہ کس قدر شکر کا مقام ہے؟ کتنا ہمیں خدا کا شکر کرنا چاہیے کہ ہم ان میں سے نہیں ہیں؛ وہ لوگ کہ جنکی یہ راتیں گناہوں کی مستی میں نذر ہو جاتی ہیں؛ غفلت کا شکار ہو جاتی ہیں؛ جنسی غریزوں کی تسکین میں غرق ہوتے ہیں؛ مادی مسائل میں گرفتار ہوتے ہیں.
اس خطبہ کا یہ پہلا حصہ تھا جسکو آج رات ہم نے آپکے لئے بیان کیا.
صلوات پڑھیں.
ہمارے مرحوم استاد کو این دو فارسی شعروں سے بہت زیادہ الفت تھی اور انکو زیادہ تکرار کرتے تھے:
ہم وہ ہیں جو دونوں جہانوں سے آزاد ہیں
اور خدا کا کرنا ایسا کہ جو کچھ ہمارے پاس ہے ہم اس سے خوشحال ہیں
ہم جانتے ہیں کہ دوست سے نیکی کے سوا کچھ اور سرزد نہیں ہوتا.
اس لئے ہم نے پہلے ہی اطاعت میں اپنا سر خم کر دیا ہے.
آپکا چہرہ انور اس مہینے میں درحالیکہ اس عمر میں روزہ رکھتے تھے سرخ ہو جاتا تھا. عشق کی تپش انکے دل میں جاری و ساری ہوتی تھی؛ انکا روزہ اہل وصال اور خواص کا روزہ ہوتا تھا. اسی خطبہ نبوی میں حضرت علی علیہ السلام بھی تشریف فرما تھے اور فرمایا: یا رسول اللہ مسلمان کے لئے اس مہینے میں کونسی چیز بہتر ہے؟
«وَ قَالَ علیہ السلام الْوَرَعُ عَنْ مَحَارِمِ اللَّہِ»؛
رسول خدا ؐ نے فرمایا : اے علیؑ اس مہینے کا بہترین عمل جو کہ ایک مسلمان کو بجا لانا چاہیے وہ محرمات سے اجتناب ہے.
اے خدا ہم ضعیف ہیں؛ آپ ہمارا ہاتھ تھام لیں؛ ہمیں قوت عطا فرما؛ تقویٰ کا ملکہ عطا فرما تاکہ ہم گناہوں کو ترک کر دیں.
پھر فرمایا: «علی! ستخَضَّبَ لِحیتَکَ بدم رأسک»؛ علی جان! اس مہینے میں تیرے سر پر ایسی ضربت لگائی جائے گی جسکے خون سے تیری ریش خضاب ہوگی مولا علیؑ نے فرمایا : یا رسول اللہ: «أ فِی سَلَامَۃِ مِنْ دِیْنِی»؛ آپ دیکھیں حضرت نے کونسا سوال کیا؟ یا رسول اللہ ! جب مجھے یہ ضربت لگے گی اور میری شہادت واقع ہوگی تو کیا میرا دین سالم ہوگا یا نہ؟ پیغمبرؐ نے فرمایا : جی ہاں، تو خدا کے دین کی راہ می شہید ہوگا.اگرچہ اس مہینے میں حضرت علیؑ کے سر اقدس پر ضربت ماری جائے گی. لیکن امام حسینؑ پر کئی ضربتیں، کئی زخم اور کئی نیزے لگائے گئے.
«افترقوا علیہ بأربع فرق، فرقۃ بالسھام و فرقۃ بالاحجار و فرقۃ بالنبال و بالسیوف»؛
لشکرِ اعداء چار گروہوں میں تقسیم ہوئے. ایک گروہ تلوار کے وار کرتا، ایک گروہ نیزے مارتا، ایک گروہ تیروں سے وار کرتا اور چوتھا گروہ پتھروں سے حملہ آور ہوتا. ہم اگر اب گریہ نہیں کریں گے تو کب کریں گے. مرحوم قمی لکھتے ہیں اس ماہ کی پہلی رات امام حسین علیہ السلام کی زیارت کی رات ہے. شب قدر کی راتوں میں بھی امام حسین کی زیارت پڑھی جائے. اے امام حسین علیہ السلام آپ نے کیا کیا؟ کہ سال کی بیشترین زیارتیں آپکے ساتھ مخصوص ہیں.
*صلی اللہ علیک یا ابا عبد اللہ*