بسم اللہ الرحمن الرحیم
*آیت اللہ کمیلی خراسانی کا ماہ شعبان کی وجہ تسمیہ اور مناجاتِ شعبانیہ کے دو جملات کی شرح کے بارے میں خصوصی بیان*
*وجہ تسمیہ*
ماہ شعبان کو شعبان کیوں کہا جاتا ہے؟ اسکے بارے میں فرماتے ہیں کہ خیرات اور معنویات کی جھت سے اسکو یہ نام دیا گیا ہے. اس بات کو سمجھانے کے لئے ایک مثال دی جاتی ہے؛ ایک جگہ پر پانی کا بڑا چشمہ موجود ہے اور اس سے چھوٹے چھوٹے ندی نالے رواں دواں ہیں. ان ندی نالوں سے زراعت اور کھیتوں کو پانی دیا جاتا ہے اور لوگوں کی ضروریات کو پورا کیا جاتا ہے شعبان کا مہینہ بھی ایسے ہی ہے. یہ مہینہ بندگانِ خدا کے لئے رحمتوں کا سرچشمہ، نفحات اور الھی جذبات سے سرشار ہے؛ آپ کو چاہیے کہ خود کو ان نفحات اور مخفی الطاف الھی سے مزین کریں تاکہ ان [خیرات اور معنویات] سے بھرہ مند ہو سکیں.
اس ماہِ مبارک میں بعض عیدیں پائی جاتی ہیں. حضرت امام حسین ۔علیہ السلام، حضرت امام زین العابدین ۔ علیہ السلام۔ اور سب سے بڑھ حضرت خاتم الآئمہ امام زمان ۔عج۔ نے زمین کو اپنے وجود سے منور کیا. بعض اس چیز کا اعتقاد رکھتے ہیں کہ چونکہ امام زمان عج خاتم الآئمہ ہیں لہذا دوسرے آئمہ علیہم السلام سے افضل و برتر ہیں ایسی ہستی نے پندرہ شعبان کو زمینِ خدا پر قدم رکھا. اسی مہینے میں آقا ابو الفضل العباس اور حضرت علی اکبر (علیہما السلام) کا میلاد مبارک ہے. ہمیں چاہیے کہ اپنی دنیوی اور اخروی حوائج کے لئے ان سب بزرگانِ عصمت و طہارت سے توسل کریں.
*ماہ شعبان کے مشہور اعمال*
اس مہینے میں دو بڑے عظیم اور مشہور اعمال ذکر کئے گئے ہیں.
1- صلواتِ شعبانیہ؛ یہ دن کے وسط اور نصف شب کو پڑھی جاتی ہے.
2- مناجاتِ شعبانیہ؛ یہ مناجات امیر المومنین اور انکی اولاد کیساتھ مخصوص ہے. ہم بھی ان بزرگان کی پیروی اور تآسی میں اس مناجات کو پڑھتے ہیں. اس مناجات کا صلوات شعبانیہ کی طرح کوئی مخصوص وقت نہیں ہے بلکہ ماہ شعبان میں جس وقت پڑھنا چاہیں قرائت کر سکتے ہیں. مرحوم شیخ عباس قمی اس دعا کے آخر میں فرماتے ہیں کہ مومنین کے لئے بہتر ہے کہ اس دعا کو شعبان کے علاوہ دوسرے مہینوں میں بھی قرائت کریں. چونکہ یہ دعا آئمہ علیہم السلام کی مناجات اور بہترین مضامین پر مشتمل ہے اور اسکے پڑھنے کا بہترین وقت وہ ہے جب حضور قلب میسر ہو؛ یعنی فقط اسی ماہ کیساتھ نہیں ہے بلکہ ہر وقت اسے پڑھ سکتے ہیں. حضرت امام خمینی ۔رضوان اللہ علیہ۔ اس دعا کو بہت اہمیت دیتے تھے اور اسکے بعض جملات حفظ تھے اور انکو نماز کے قنوت و سجود، نماز کے بعد یا باقی اوقات میں جب دعا کی طرف دل مائل پڑھنے کی تاکید فرماتے تھے.
*پہلے جملے کی شرح*
«إِلَهِی هَبْ لِی کَمَالَ الانْقِطَاعِ إِلَیْکَ وَ أَنِرْ أَبْصَارَ قُلُوبِنَا بِضِیَاءِ نَظَرِهَا إِلَیْکَ حَتَّى تَخْرِقَ أَبْصَارُ الْقُلُوبِ حُجُبَ النُّورِ فَتَصِلَ إِلَى مَعْدِنِ الْعَظَمَهِ وَ تَصِیرَ أَرْوَاحُنَا مُعَلَّقَهً بِعِزِّ قُدْسِکَ»
اس دعائیہ جملے کو علماء اور غیر علماء بہت زیادہ پڑھتے ہیں
اے خدا : مجھ کو اپنی جانب مکمل انقطاع عطا فرما. ہم کیسے اپنے اندر غیر خدا سے منہ موڑ کر خدا کی طرف متوجہ ہوں؟ کن چیزوں سے کنارہ کشی ضروری ہے؟ دنیاوی تعلقات، غیر خدا سے محبت پیدا کرنے والی اشیاء جیسے پیسے، مال، دنیا کو اپنے دل سے باہر نکالیں اور اس کی جگہ خدا کی محبت کو قرار دیں. اسکے لئے چند طریقے پائے جاتے ہیں. مرحوم ملا احمد نراقی اپنی کتاب معراج السعادہ میں فرماتے ہیں: وہ طریقہ جس سے محبت خدا انسان کے دل میں راسخ اور ثابت ہو جاتی ہے یہ ہے کہ اسکی ایک ایک نعمت کے بارے میں فکر کریں جو اس نے آپکو مرحمت فرمائی ہیں ان نعمات کو شمار کریں اور انکو ہمیشہ اپنے ذھن میں رکھیں تاکہ تدریجاً خداوند متعال کی محبت ان نعمات کے ذریعہ جو اس نے آپکو عنایت کی ہیں آپکے دل میں داخل ہو کر قوی ہو جائے. اگر یہ محبت انسان کے دل میں داخل ہو جائے تو پھر وہ غیر خدا کی طرف نہیں جاتا اور تمام حالات میں خداوند متعال کی ذات ہی اسکی بہترین پناہ گاہ ہو جاتی ہے. ایسی نعمتیں زیادہ ہیں ایک دو نہیں. لذا انسان کو چاہیے کہ اس کام کی ابتداء اپنی ذات سے شروع کرے؛ بدن کے اعضاء، آنکھ، ہاتھ اور کانوں [کے بارے میں تفکر کرے] البتہ توحید مفضل میں —مفضل امام صادق علیہ السلام کے دوستوں میں سے تھے— ان تمام موارد کو وضاحت کیساتھ بیان کیا گیا ہے اس کتاب کو خریدیں اور پڑھیں.
*شرح «وَ أَنِرْ أَبْصَارَ قُلُوبِنَا بِضِیَاءِ نَظَرِھَا أِلَیْکَ»؛*
یہ جملہ اس دعا کے برجستہ ترین جملات میں سے ہے. اس مطلب سے یہ پتہ چلتا ہے کہ دل کے اندر آنکھ پائی جاتی ہے. جس طرح آپکے سر کے اندر ایک ظاہری آنکھ موجود ہے اسی طرح آپکے دل کے اندر بھی ایک برزخی آنکھ پائی جاتی ہے کہ اسے روشن و بینا کرنے کی ضرورت ہے. بصر قلب وہی دل کی آنکھ ہے. خدایا میرے دل کی نگاہ کو روشن فرما! کس چیز کیساتھ؟
*شرح «ضِیَاءِ نَظَرِھَا أِلَیْکَ»؛*
اُس اندرونی نور سے جو تیرا مشاہدہ کر سکے؛ یعنی اپنے اندر توحیدی نگاہ پیدا کریں تاکہ جس چیز پر ہماری نگاہ پڑے اسکو لطفِ خدا اور اثباتِ خدا کے لئے ایک راہ تصور کریں؛ چونکہ ہمارے پاس کوئی طاقت ہی نہیں ہے. اگر خداوند متعال سانس لینے میں ہماری مدد نہ کرے تو ہم دوسرا، تیسرا اور چوتھا سانس نہیں لے سکتے. جب سانس لینا ایسا ہے تو باقی امور کا کیا حال ہوگا؟ در حقیقت تمام امور کی یہی صورتحال ہے لذا ہمیں چاہیے کہ اپنی توجہ کو روز بروز اس خالق حقیقی اور محبوب کی جانب بڑھائیں. کب تک؟
*شرح «حَتَّی تَخْرِقَ أَبْصَارُ الْقُلُوبِ حُجُبَ النُّورِ»؛*
اس جملے سے واضح ہوتا ہے کہ حجاب کی دو قسمیں ہیں حجاب ظلمت و حجاب نور. ہم بیشتر اوقات نفس امارہ کے ظلمانی حجابوں میں گرفتار ہیں؛ لیکن اس دعا میں فرماتے ہیں کہ حجابِ نورانی کو عبور کر کے آگے بڑھنا چاہیے. حجاب نورانی سے کیا مراد ہے ؟ بعض علماء فرماتے ہیں کہ اس سے مراد وہ کشف و شہود کی منزل ہے کہ جسکی طرف توجہ نہیں کرنی چاہیے. مکاشفات کی دو قسمیں ہیں: صحیح و سقیم. مثال کے طور پر انسان بیداری کی حالت میں ایک اچھی چیز دیکھتا ہے یا جب انسان پر ایک اچھی کیفیت طاری ہو تو بعض چیزیں دیکھ سکتا ہے؛ فرض کریں ایک انسان نے ایک گھنٹہ تنہائی میں خدا کے سامنے گریہ و زاری کی پھر ایک شکل دیکھتا ہے. شکل یعنی مکاشفہ اور اچھی جگہ کو دیکھنا ہے؛ یعنی جو چیزیں خواب میں دیکھتا ہے اب بیداری کی حالت میں دیکھ رہا ہے مثلاً امام حسینؑ یا باقی آئمہؑ کو دیکھتا ہے یا خود کو ایک اچھے اور سر سبز ماحول میں دیکھتا ہے. یہ بالکل صحیح مکاشفات ہیں؛ لیکن بعض اوقات مکاشفات، آشفتہ و بکھرے ہوئے ہیں؛ یعنی بعض اوقات پراکندہ افکار کی وجہ سے، آشفتہ خواب یا آشفتہ مکاشفات کا مشاہدہ کرتا ہے. یہ وہ مقام ہے جہاں پر کہتے ہیں کہ انسان کے لئے ایک استاد اخلاق و عرفان کا ہونا ضروری ہے تاکہ جب وہ ایسے خیالات کا سامنا کرے تو اس تمام صورتحال سے استاد کو آگاہ کرے. اس صورتحال میں استاد اسکی بہترین تربیت کر سکتا ہے اور اسے کمال کی حد تک پہنچا سکتا ہے. پس مکاشفات اور نورانی خواب کے مشاہدہ کرنے کے ساتھ اسے اپنے لئے بُت قرار نہ دیں اور خوش ہو جائیں اور کہنا شروع کر دیں کہ ہم منزلِ مقصود تک پہنچ چکے ہیں اور کام تمام ہو چکا ہے. بعض اوقات ایسے مسائل انسان کی آزمائش کے لئے ہوتے ہیں؛ یعنی خداوند متعال آپکو اولاد، مال و ثروت، گھر اور گاڑی عطا کرتا ہے تاکہ دیکھے کہ تم کیا کرتے ہو؛ کیا ان وسائل کے ساتھ زیادہ مانوس ہو جاتے ہو؟ کیا خمس ادا کرتے ہو یا نہیں؟ یہ سب چیزیں آزمائش کے لئے ہیں. عزیزان : معنوی مسائل بھی اسی طرح ہیں. بعض اوقات کرامات انسان کے لئے ظاہر ہوتی ہیں؛ مثلا سچا خواب دیکھتا ہے؛ رات کو ایک خواب دیکھتا ہے جو دن کو سچا ثابت ہوتا ہے. یا یہی مکاشفات اور ان جیسی بعض چیزیں جنکی ہم نے مثالیں بیان کی ہیں اور وہ قصے اور داستانیں جو بزرگ علماء اور اولیاء اللہ نے بیان کی ہیں. یہ سب چیزیں ایک آزمائش ہیں تاکہ ہم متوجہ ہوں کہ کیا ان چیزوں سے چمٹ جاتے ہیں اور انکو اپنے لئے بُت بنا لیتے ہیں؛ [ یا اس مطلب کی جانب متوجہ ہیں ] کہ ابھی اس سے بہتر اور بالاتر چیزیں بھی پائی جاتی ہیں؟ لذا معارفِ الھی اور ایمانی درجات نہایت مہم ہیں؛ ہم کہتے ہیں: آپ ان پردوں کو عبور کریں اور انکی طرف بالکل توجہ نہ کریں. اسکے بعد کہاں پہنچیں گے؟
*شرح «فَتَصِلَ أِلَی مَعْدِنِ الْعَظَمَۃِ»؛*
حتماً آگے بڑھتے رہیں تاکہ خود خدا کو ڈھونڈ لیں؛ یعنی وہ حقیقتِ گم شدہ جوکہ آپکے وجود کے اندر ہے؛ وہ حقیقت توحیدی اور نگاہ جھانی الہی کو پیدا کریں تاکہ جو چیز دیکھیں اُس کی طرف نسبت دیں اور اپنی جانب نسبت نہ دیں؛ اس طرح نہ کہیں کہ میں نے اس کام کو انجام دیا ہے. آپکی قدرت و طاقت کا مرکز و محور کون اور کہاں سے ہے؟ اس سے بڑھ کر اور کیا ظلم ہوگا کہ کسی دوسرے کے حق کو غصب کریں اور پھر کہیں کہ اسے میں نے پیدا کیا ہے؟ پھر آپ دیکھتے ہیں کہ وہ مال اور زمین جو اسکا حق نہیں تھی اس پر تجاوز کرتا ہے اور اسے اپنا حصہ اور مال سمجھتا ہے اور کہتا ہے کہ یہ میرا مال ہے! یہ نکتہ حق الناس کے حوالے سے تھا. اب دیکھتے ہیں کہ حق اللہ کیساتھ اسکا رویہ کیسا ہے. خدا کیساتھ رابطے کی کیفیت و نوعیت بھی ایسی ہی ہے(حقوق العباد کی طرح) اگر کوئی کہے کہ جو کچھ خدا کے لئے ہے وہ سب میرا ہے! تو یہ کہنا ظلم ہے.خداوند منان نے آپکو صرف قدرت، طاقت اور روزی دی ہوئی ہے؛ رازق وہ ہے یہ سب چیزیں خدا کی طرف سے ہیں. اب کہتا ہے کہ میں نے بہت محنت و تلاش کے بعد اسے پایا ہے اور میں، میں کرتا ہے. یہ بھی ظلم ہے! یہاں پر مہم یہ ہے کہ آپ ان تمام مقامات سے عبور کریں تاکہ اس عظمت و معرفت کے خزانے تک پہنچیں.
*شرح «وَ تَصِیرَ أَرْوَاحُنَا مُعَلَّقَۃً بِعِزِّ قُدْسِکَ»؛*
تاکہ ہماری ارواح الہی اور ملکوتی ہو جائیں نفس مطمئنہ کی طرح ہو جائیں اور قدسِ الہی سے تعلق پیدا کریں.
*دعائیہ جملے کی شرح*
«وَ قَدْ جَرَتْ مَقَادِيرُكَ عَلَيَّ يَا سَيِّدِي فِيمَا يَكُونُ مِنِّي إِلَى آخِرِ عُمْرِي مِنْ سَرِيرَتِي وَ عَلانِيَتِي وَ بِيَدِكَ لا بِيَدِ غَيْرِكَ زِيَادَتِي وَ نَقْصِي وَ نَفْعِي وَ ضَرِّي»
*شرح«وَ قَدْ جَرَتْ مَقَادِيرُكَ عَلَيَّ يَا سَيِّدِي فِيمَا يَكُونُ مِنِّي إِلَى آخِرِ عُمْرِي*
یہ وہی الفاظ ہیں جو شب قدر میں کہے جاتے ہیں آپکے ایک سال کے تمام امور و تقدیر جیسے عمر، مال، روزی، اولاد اور سب چیزیں خدا کے پاس لکھی جاتی ہیں لیکن قابلِ تغییر و تبدیل ہیں. ایسا نہیں کہ اگر لکھ دی گئیں تو پھر [محو نہیں ہوگیں] توجہ کریں کہ خداوند عزیز کا ایک منظم نظام ہے جس طرح ہمیں اپنے امور میں نظم و ضبط رکھنا چاہیے خداوند متعال نیز اپنے کاموں میں نظم و ضبط رکھتا ہے؛ یعنی اسکے پاس لوحِ محفوظ ہے؛ بیت المعمور ہے؛ اسکے پاس ملائکہ ہیں؛ اسکے اپنے کام ہیں؛خداوند بزرگ ایسا بادشاہ ہے جسکے پاس تمام قوت و قدرت موجود ہے؛ تمام عوامل اسکے ہاتھ میں ہیں؛ سارے آسمان، زمین، جن، انس، ملک، اور باقی تمام چیزیں اسکے قبضۂ قدرت میں ہیں؛ کیا اس عظیم حاکم اور سلطان کے کاموں میں نظم و ضبط نہیں ہونا چاہیے؟ کیا وہ خدا جو اپنے بندوں سے فرماتا ہے کہ اپنے امور میں نظم و ضبط کا مظاہرہ کریں تو کیا ممکن ہے کہ وہ خود نظم و ضبط نہ رکھتا ہو. بندوں کے امور، اس جھان کے امور، وہ تمام جنگیں جن میں کامیابی ملنی چاہیے اور وہ سب امور جو مستقبل میں وقوع پذیر ہونے چاہیے یہ سب چیزیں خداوند متعال کے نظام میں محفوظ ہیں اور سب کے سب ایک قانون اور نظام کے مطابق ہیں.خداوند متعال اس نظام کے بارے میں با خبر و آگاہ ہے اور اپنے بندوں کے لئے تمام چیزیں جیسے نظم و نظام، تمام اندازے و مقدرات، قضا و قدر لوحِ محفوظ میں لکھی ہوئی ہیں. کیوں یہ امور تبدیل ہو سکتے ہیں؟ تاکہ آپ دیکھیں کہ صلہ رحمی زندگی کے دراز ہونے کا باعث بنتی ہے اور اسی طرح عاق والدین عمر کے کم ہونے کا موجب بنتی ہے؛ اسی باقی موارد جو کہ قرآن میں آئے ہیں اور کم و زیادہ ہونے کا سبب بنتے ہیں،اس وقت آپ کو چاہیے کہ محتاط رہیں اور متوجہ رہیں تاکہ خداوند متعال کو خود سے راضی رکھ سکیں.
*شرح«وَ قَدْ جَرَتْ مَقَادِیرُکَ»*
ساری تقدیریں میرے اوپر جاری و ساری ہیں. جب سے ماں نے آپکو جَنا اور پھر جب دنیا سے سدھار جائیں گے اور کتنی عمر کریں گے یہ سب خدا کے ہاتھ میں ہے. معلوم نہیں ہے ستر سال، اسی سال، سو سال، پانچ سال یا دس سال[زندگی کرو] بعض بچے ماں کے پیٹ میں سقط ہو جاتے ہیں اگر چار ماہ کا ہو چکا ہو تو بچہ ہے. میں یہ عرض کرنا چاہتا ہوں کہ یہ تمام تقدیریں خداوند متعال کی ہیں. کچھ عرصہ پہلے قم المقدس میں روڈ سے گزرت وقت ہم ایک آواز سنتے ہیں جب اسکی طرف متوجہ ہوتے ہیں تو دیکھتے ہیں ایک یونیورسٹی کی لڑکی چوتھی منزل(فلور) سے گر گئی ہے. تحقیقات کے بعد معلوم ہوا کہ یہ ایک باحجاب خاتون تھی کھڑکی کا شیشہ صاف کرنے کے لئے متحرک کرسی کے اوپر چڑھتی ہے لیکن اس دوران بیلنس برقرار نہ رکھنے کی وجہ سے نیچے گر جاتی ہے اور فوت ہو جاتی ہے. اسکی موت اس طرح سے ہوئی. کیا یہ اچھی موت ہے یا بری؟ کیا آپ سو فیصد کہتے ہیں کہ یہ بری موت ہے ؟ البتہ یہ صحیح ہے کہ دعا میں وارد ہوا ہے کہ خدایا میری موت کو شہادت کی موت قرار دے [یا میری موت ایسی ہو کہ] وصیت کر چکا ہوں، میرے پاوں قبلہ کی طرف ہوں شہادتین اور حالت احتضار کیساتھ اس دنیا سے رخصت ہوں. یہ سب چیزیں ٹھیک ہیں. روایات میں ذکر ہوا ہے اگر زلزلہ آ جائے؛ یا (گھر) کی چھت گر جائے اور آپ نیچے آ جائیں؛ یا آگ بھڑک اٹھے آسمانی بجلی گرے اور مرجائیں؛ آپکو ایک شہید کا اجر دیا جائے گا. لذا اگر کوئی ایسی موت مرے اس شرط کیساتھ کہ مقصر نہ ہو اور خودکشی بھی نہ کی ہو تو اسے شہید جتنا اجر و ثواب دیا جائے گا. میری رائے یہ ہے کہ بعض روایات کے مطابق اگر کوئی شخص آگ میں جل جائے، کوئی حادثہ پیش آ جائے یا ٹریفک حادثے میں مقصر نہ ہو اور جان بوجھ کر ایکسیڈنٹ نہ کیا ہو اور کوئی دوسرا شخص اس کی گاڑی کو ٹکر مارے اور یہ شخص مر جائے تو شہید کا اجر و ثواب رکھتا ہے. لذا ایسا نہیں ہے کہ ہم کہیں کیوں ایسا ہوا کیوں ویسا ہوا! اس واقعہ اور مثالوں کو بیان کرنے کا مقصد یہ ہے کہ ہم جان لیں کہ تمام تقدیریں خدا کے ہاتھ میں ہیں؛ یہاں تک کہ ہماری موت کیسی موت ہوگی اس کے لئے بھی دیکھنا ہوگا کہ خداوند متعال نے ہماری موت کو کس کیفیت کے ساتھ لکھا ہے.قرآن مجید میں نیز ارشاد ہوا ہے: «وَمَا تَدْرِی نَفْسٌ بِأَیِّ أَرْضٍ تَمُوتُ»؛
کوئی شخص بھی یہ نہیں جانتا کہ وہ کس سر زمین میں مرے گا اور کہاں دفن ہوگا.
*شرح «مِنْ سَرِیْرَتِی وَ عَلانِیَتِی»؛*
پس جس طرح اس دعا میں وارد ہوا ہے تمام امور چاہے وہ آشکار ہوں یا پنھاں خداوند منان کے ہاتھ میں ہیں.
*شرح«وَ بِیَدِکَ لا بِیَدِ غَیْرِکَ زِیَادَتِی وَ نَقْصِی وَ نَفْعِی وَ ضَرِّی»؛*
میرے تمام امور چاہے کم ہوں یا زیادہ اور اسی طرح [میرا نفع و نقصان] آپکے ہاتھ میں ہے. تمام چیزیں خدا کے ہاتھ میں ہیں. اگر خدا کے بارے میں ایسا اعتقاد پیدا کریں گے تو سکون و آرام کی منزل تک پہنچیں گے؛ پھر زندگی میں چون چرا نہیں کریں گے اور اپنے آپ کو نہیں کوسیں گے کہ کیوں ایسا ہوا کیوں ویسا ہوا..
*شرح«وَلا أَقُوْلَ لِمَ وَ کَیْفَ وَمَا بَالُ وَلِیِّ الأَمْرِ لا یَظْھَرُ» دعائے غیبت*
آقا جان ہم حتی امام زمان عج کے ظہور کے بارے میں بھی «کیوں» نہیں کہ سکتے! دعائے غیبت میں پڑھتے ہیں: ««وَلا أَقُوْلَ لِمَ وَ کَیْفَ وَمَا بَالُ وَلِیِّ الأَمْرِ لا یَظْھَرُ»؛ یعنی اگر آپ کہیں[کس لئے، کیسے اور کیوں ولی امر ظہور نہیں فرماتے] یہ کہنا کفر ہے.آپ امرِ خدا پر اعتراض نہ کریں اور یہ کہنا شروع کر دیں کہ کیوں ولی امر کو کئی سالوں سے پردہ کے پیچھے روکا ہوا ہے؟ کیوں اسے ظاہر نہیں کرتے؟ امر خدا کے بارے میں ہمیں «کیوں کیوں» نہیں کرنی چاہیے کیونکہ ایسا کہنا کفر ہے؛ کیونکہ خداوند متعال نے امام زمان عج کو خلق فرمایا ہے اور اسکے لئے غیبت صغریٰ و کبریٰ قرار دی ہے اور اللہ تعالی نے ایک وقت انکے ظہور کے لئے مختص کیا ہوا ہے اب اس وقت کا تعین خدا کی مرضی پر منحصر ہے. اب ہم چاہتے ہیں خدا کے ارادہ اور اسکے کام میں مداخلت کریں! اور خدا سے کہتے ہیں کیوں ایسا نہیں ہوتا؟ کیوں ایسا ہوا ہے؟ کیوں حضرت ظاہر نہیں ہوتے؟ کیوں……آپ کو چاہیے کہ خدا کے حکم کے سامنے سر تسلیم خم کر دیں؛ حضرت کے ظھور کے لئے دعا کریں؛ چونکہ ہماری دعاوں کا مرجع خدا کے علاوہ اور کون ہوسکتا ہے ؟ خدا دعا کا مرجع ہے؛ لذا خداوند متعال نے حضرت کو پشتِ پردہ رکھا ہوا اب ہم دعا کرتے ہیں تاکہ خدا کا ارادہ اس سے متعلق وقوع پذیر ہو اور آنحضرت کو آشکار کریں. یہ کام بہت اچھا ہے؛ لیکن اگر ہم صرف بیٹھ کر سر پیٹیں اور «کیوں، کیسے» کہیں. یہ درست نہیں ہے. خدا کے کاموں میں دخالت نہیں کی جا سکتی.پس اس بنا پر ہمارا وظیفہ ان امور میں جیسے جنگِ جہانی(ورلڈ وار) اور وہ حادثات جوکہ ہماری طاقت سے باہر ہیں اور وہ فطری حوادثات جو کہ ہماری دسترس سے خارج ہیں، رضا و تسلیم ہے. دعائے امین اللہ میں پڑھتے ہیں: «اللَّھُمَّ اجْعَلْ نَفْسِی مُطْمَئِنَّۃً بِقَدَرِکَ رَاضِیَۃً بِقَضائِکَ» خدایا میرے نفس کو ایسا بنا دے کہ تیرے حکم و قضا پر راضی رہوں اور تیرے امور میں چون چرا نہ کروں.
*خدا کے ساتھ مناجات*
اے ہمارے پروردگار امور خیر میں ہمیں موفقیت عطا فرما اور امور شر کو ہم سے دور فرما.
مسلمین و اسلام کی نصرت فرما. علماء و مراجع عظام بالخصوص رھبر معظم کو امام زمانہ کی پناہ میں زمانے کی گزند و شر سے محفوظ فرما.
خدایا اس محفل میں جو کوئی جو حاجت اور مشکل رکھتا ہے اور اسی طرح تمام مسلمین کی مشکلات کو رفع دفع فرما. الہی تجھے اپنی ذات کے حق کا واسطہ، اپنی اسماء کی صفات کا واسطہ، تجھے اپنے اعز اسماء اور مخصوص صفات کی قسم دیتے ہیں کہ اپنے ارادہ اور امر، ولی، امام اور ہمارے پیشوا حضرت بقیۃ اللہ«عج» کو اس دنیا ظلمت کدہ میں ہم مسلمانوں کے لئے جو کہ آپؑ کے انتظار میں ہیں– چونکہ بعض حضرت کے انتظار میں نہیں ہیں اور نہ ہی انکے معتقد ہیں– ظاہر فرما. ہمیں آپؑ کی رکاب میں شہادت نصیب فرما.«اللَّھُمَّ اغْفِر لِلمُومِنینَ وَ المُومِنَاتِ اَلأَحْیَاءِ مِنْھُم وَ الأَمْوَاتِ الفاتحہ مع الصلوات.»