بند 73 کی شرح، کتاب مطالب السلوکیہ سے، جسکا موضوع حقِ استاد ہے

بسم اللہ الرحمن الرحیم 
و صلی اللہ علی محمد و آلہ الطاہرین

بند 73 کی شرح، کتاب مطالب السلوکیہ سے، جسکا موضوع حقِ استاد ہے

امام زین العابدین علیہ السلام کے رسالہ حقوق میں استاد کے تیرہ حقوق بیان ہوئے ہیں جنکی شاگرد کو ہر حال میں رعایت کرنی چاہیے
اس حدیث کے آخر میں ذکر ہوا ہے کہ اگر کوئی شاگرد ان تیرہ دستور اور آداب کی رعایت کرے تو اللہ تعالیٰ کے فرشتے اس شاگرد کے بارے میں گواہی دیتے ہیں کہ یہ فقط اور فقط رضائے الہی کی خاطر علم حاصل کرنے آیا ہے یعنی استاد سے علم حاصل کرنے آیا ہے تاکہ خدا سے نزدیک ہو جائے لیکن اگر شاگرد ان آداب کی رعایت نہ کرے اور علم حاصل کر لینے کے باوجود بھی اسکا ارادہ رضائے الٰہی نہیں ہے بلکہ لوگوں کے لئے حاصل کرتا رہا ہے. اگر شاگرد کی نیت یہ ہو کہ علم حاصل کر کے خدا کی خوشنودی کا طلبگار بنے تو اسے ان تیرہ آداب پر عمل کرنا چاہیے جو کہ ہمارے چوتھے امام، امام سجاد علیہ السلام کے رسالہ حقوق(جو کہ بہت مشہور و معروف ہے) میں بیان ہوئے ہیں. ہم نے اس بحث کو کتاب مطالب السلوکیہ کے بند نمبر 73 میں ذکر کیا ہے. 
اس بحث کا عنوان حقِ استاد ہے؛ یعنی یہ تیرہ آداب جو کہ امام علیہ السلام نے بیان فرمائے ہیں یہ استاد کے وہ حقوق ہیں جن پر عمل کرنا ایک اچھے شاگرد کے لئے انتہائی اہم ہے، امام علیہ السلام کے رسالے کا نام بھی حقوق ہے  اب ہمیں دیکھنا چاہیے کہ حضرت جن حقوق کی ہمیں تعلیم دے رہے ہیں انکی کتنی رعایت کرتے ہیں. اگر ہم ان تیرہ امور میں سے دو چار کی رعایت کرتے ہیں اور باقی کو کم اہمیت دیتے ہیں تو ہمیں ان باقی پر بھی عمل کرنا چاہیے. 
یہ بحث، انتہائی مفید اور اہم ہے کیونکہ اگر یہ حقوق شاگرد کی گردن پر باقی رہ گئے تو وہ ہدف تک نہیں پہنچ سکے گا، اگر فقط آتا جاتا رہتا ہے تو اسکا ہدف یا ریاکاری ہے یا استاد کے نام سے فائدہ لینا چاہتا ہے. بعض طلاب چند سبجیکٹ چند اساتذہ سے پڑھتے ہیں اسکے ساتھ کہتے ہیں کہ ایک استاد علم اخلاق و عرفان میں بھی ہونا چاہئیے، یہ کام فقط شہرت کے لئے اختیار کرتے ہیں لیکن اگر کوئی خدا کی رضا کے لئےاستاد کی محفل میں درس پڑھنے آتا ہے تو اسے ان حقوق پر جان و دل سے عمل کرنا چاہیے جنکا ہمارے مقتدا اور پیشوا امام نے ہمیں حکم دیا ہے. پس ہمیں دیکھنا چاہیے کہ ہم نے کن حقوق پر عمل نہیں کیا ہے پس ان پر عمل کریں اور اپنی نیت کو خالص خدا کے لئے انجام دیں.

حق الاستاد

و أما حق سائسک بالعلم فالتعظیم له والتوقیر لمجلسه و حسن الاستماع إلیه و الاقبال علیه و أن لا ترفع علیه صوتک و لا تجیب أحدا یسأله عن شئ حتى یکون هو الذى یجیب ولا تحدث فی مجلسه أحدا ولا تغتاب عنده أحدا و أن تدفع عنه إذا ذکر عندک بسوء و أن تستر عیوبه و تظهر مناقبه و لا تجالس له عدوا و لا تعادى له ولیا و إذا فعلت ذلک شهدت لک ملائکه الله بانک قصدته وتعلمت علمه لله جل اسمه لا للناس.[۱]
امام زین العابدین علیہ السلام فرماتے ہیں : «اس شخص کا حق جو تجھے علم و دانش سے بہرہ مند کرے یہ ہے کہ اسکی عزت و احترام کرو،اسکے درس کو خوب کان لگا کر سنو، اسکے سامنے باادب ہو کر بیٹھو، اسکی آواز سے، اپنی آواز کو بلند نہ کرو، جب تک استاد موجود ہے اور کسی کے سوال کا جواب دے رہا ہے تو تم کسی کے سوال کا جواب نہ دو  تاکہ خود استاد سوال کا جواب دے سکے، استاد کی محفل میں کسی کلاسی  سے بات چیت نہ کرو، استاد کے سامنے کسی کی غیبت نہ کرو، اگر تمہارے سامنے استاد کے بارے میں کچھ غلط بولا جائے تو استاد کا دفاع کرو، اسکے عیبوں کی پردہ پوشی کرو لیکن اسکی خوبیوں کو ظاہر و آشکار کرو. کبھی بھی استاد کے دشمن کیساتھ تعلقات نہ رکھو اور نہ ہی اسکے دوست سے دشمنی رکھو. پس اگر تم نے ان سب پر عمل کیا تو فرشتے گواہی دیتے ہیں کہ تم اسکے پاس گئے اور اس سے کسبِ علم کیا رضائے الٰہی کے لئے، لوگوں کی خاطر نہیں.»
اس حدیث شریف کی تشریح کو ہم یوں بیان کرتے ہیں کہ ایک علم ہوتا ہے ایک معلم اور ایک متعلم.  وہ علوم جو کہ استاد تربیت اور سیر و سلوک کے حوالے سے بیان فرماتا ہے وہ نہایت قیمتی ہیں؛  علمِ اخلاق، علمِ عرفان اور دوسرے علوم جو انسان کی ضرورت ہیں ان کو حاصل کرنا چاہیے. آپ درس پڑھنے کے لئے آئے اور ایک استاد کا انتخاب کیا اور اپنے ساتھ کتاب بھی لائے اور استاد سے علم حاصل کرنے میں مشغول ہو گئے. تو اس کلاس اور استاد کے لئے کچھ آداب اور شرائط ہیں جنکی شاگردوں کو حتماً رعایت کرنی چاہیے. 

1-«فالتعظیم لہ»

سب سے پہلا ادب کہ جسکی  رعایت کرنی چاہیے وہ شاگرد کے دل میں استاد کی تعظیم و تکریم ہے. یعنی اگر خدا نہ کرے استاد وہ عزت و احترام جو ایک شاگرد کے دل میں ہونی چاہیے، نہ رکھتا ہو تو یہاں پر شاگرد اس خاص توجہ کو حاصل نہیں کر سکتا اور نہ ہی استاد سے علمی فائدہ اٹھا سکتا ہے.

2-«والتوقیر لمجلسہ»

دوسری چیز یہ ہے کہ استاد کی عزت و احترام کے علاوہ، اسکی کلاس کی بھی حرمت کا لحاظ رکھے، یعنی اگر کلاس میں داخل ہو اور استاد تشریف فرما ہوں تو حتماً با وقار، باوضو اور با طہارت استاد کی مجلس میں داخل ہو اور مجلسِ استاد کا احترام کرے اور اسے چھوٹا نہ سمجھے.

3-«حسن الأستماع ألیہ»

یہاں پر امام نے استماع فرمایا ہے سماع نہیں. «سماع» یعنی بغیر توجہ کے ایسے ہی کسی کی بات کو سننا لیکن استماع یعنی دل و جان اور توجہ سے سننا ہے. یعنی اگر استاد کی کلاس میں گئے ہو تو آپکا دل و دماغ دوسری جگہ نہیں ہونا چاہیے آپکی توجہ استاد کے علاوہ کسی دوسرے استاد یا کسی دوسرے فرد کی جانب نہیں ہونی چاہیے. بلکہ پورے کامل وجود کیساتھ استاد کی طرف متوجہ رہو. 

4-«و الاقبال علیہ»

استاد کے بالکل سامنے بیٹھنا چاہیے. بعض طلاب اس مسئلے کی طرف دھیان نہیں دیتے اور جہاں جگہ ملتی ہے وہیں بیٹھ جاتے ہیں. میں نے بعض کتابوں میں دیکھا ہے کہ استاد کے سامنے دو زانو اور مودب ہو کر بیٹھو. ممکن ہے استاد اس مسئلے کی جانب متوجہ نہ ہو لیکن یہ شاگرد کی ذمہ داری ہے کہ استاد کا اکرام و احترام کرے اور اسکی باتوں کو توجہ سے سنے اور استاد کے سامنے بیٹھے تاکہ استاد کی طرف نگاہ کرنے سے فائدہ اٹھائے تو یہ سب عوامل نفسیاتی طور پر شاگرد پر اثرانداز ہوتے ہیں. اسکی روح و روان کے رشد و ترقی کا باعث بنتے ہیں اور اگر شاگرد ان عوامل کی رعایت نہ کرے تو سیر و سلوک کی یہ کلاس بھی بقیہ کلاسز کی طرح عام ہو جائے گی تو پھر ایسی حالت میں وہ کیسے روحانی ترقی و پیشرفت کر سکے گا؟

5-«و أن لا ترفع علیہ صوتک»

جب استاد کے پاس حاضر ہوں اور بات کرنا چاہیں یا سوال پوچھنا ہو تو دھیمی و آہستہ آواز اور متواضع لب و لہجہ کیساتھ گفتگو کریں کہیں ایسا نہ ہو کہ آپکی آواز بہت بلند اور لہجہ مخاصمانہ ہو. قرآن مجید میں والدین کی تعظیم اور آواز کو نیچا رکھنے کے بارے میں ایک آیت ذکر ہوئی ہے وَ بِالوَالِدَیْنِ أِحسَاناً أِمَّا یَبْلُغَنَّ عِنْدَکَ الْکِبَرَ أَحَدُھُما أَو کِلاَھُمَا فَلاَ تَعْلَمُ لَّھُمَا أُفٍّ وَلاَ تَنْھَرھُمَا وَ قُلْ لَّھُمَا قَولاً کَرِیمًا. ﴿23﴾ وَاخْفِضْ لَھُمَا جَنَاحَ الذُّلِّ مِنَ الرَّحْمۃِ وَ رَّبِّ ارْحَمْھُمَا کَمَا رَبَّیَانِی صَغِیْرًا) ﴿24﴾ [2]
مذکورہ آیت میں جو قولِ کریم ذکر ہوا ہے اسکی مفسرین نے تفسیر، *”نرمی کے ساتھ گفتگو”* فرمائی ہے. جب انسان اپنے والدین سے گفتگو کرنا چاہے تو نہایت نرمی اور تواضع سے گفتگو کرے اور بے ادبی اور اونچی آواز میں بات نہ کرے. یہ چیزیں تعظیم و احترام کے عنوان سے قرآن مجید میں ذکر ہوئی ہیں. یہاں پر سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ کس والد کا احترام زیادہ ہے(چونکہ انسان کے تین باپ ہیں استاد،سُسر،اسکا والد.. مترجم) کیا نسبی باپ کا احترام زیادہ ہے یا وہ جس نے تجھے اپنی دختر دی ہے یا روحانی باپ؟ قطعاً وہ باپ کہ جو تمہاری تربیت کرتا ہے اور آپکو سیر و سلوک کی اعلیٰ منازل طے کراتا ہے اسکا احترام باقیوں کی نسبت بہت زیادہ ہے جب قرآن والدین کے بارے میں ہمیں یوں حکم دیتا ہے کہ انکے ساتھ تواضع اور نرمی کیساتھ گفتگو کرو یعنی غرور و نخوت سے کلام نہ کرو، جب ہم اس قرآنی دستور کو والدین کے بارے میں پڑھتے ہیں تو کیا ہمیں روحانی باپ یعنی مربی کے بارے میں رعایت نہیں کرنی چاہیے؟ یقیناً اس مربی کی عزت و احترام نسبی والدین سے بہت زیادہ ہے.  لہذا پیغمبر اکرم صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم اور علی علیہ السلام کے بارے میں ایک مشہور و معروف حدیث مبارک یوں ذکر ہوئی ہے کہ«أنا و علی ابوا ھذہ الامہ )[3]» میں اور علی اس امت کے باپ ہیں. اس سے کونسا باپ مراد ہے؟ یہاں پر وہی معنوی و روحانی باپ مراد ہے. 
پس بناء بر این یہاں پر امام سجاد علیہ السلام فرماتے ہیں کہ *لا ترفع علیہ صوتک* مبادا استاد کے سامنے اونچی آواز میں بات کرنا یا اسکی بے احترامی کرنا. 

6-«ولا تجیب أحدا یسألہ عن شیئ حتی یکون ھو الذی یجیب»

آپ استاد کی کلاس میں گئے کسی شاگرد نے استاد سے سوال کیا. آپ کو سوال کا جواب آتا ہے تو آپ استاد کو جواب نہیں دینے دیتے اور درمیان میں کود پڑتے ہیں اور سوال کا جواب دے دیتے ہیں. کیا آپکا یہ انداز درست ہے ؟ کیا آپ نے اچھا کام کیا ہے؟ فرماتے ہیں.. نہیں، یہ اچھا کام نہیں ہے. یہ بات ٹھیک ہے کہ آپکو سوال کا جواب آتا تھا اور آپ نے استاد کی مدد کی ہے لیکن استاد کی اجازت کے بغیر جواب دینا، سوال کرنے والے نے استاد سے سوال کیا ہے لیکن تم اسے جواب دیتے ہو اور سائل کی توجہ استاد کی بجائے تمہاری طرف ہو گئی حقیقت میں آپ بھی اس سائل کی طرح اسی استاد کے شاگرد ہو پس یہ کام تربیتی اصولوں میں درست نہیں ہے. 

7-«ولا تحدث فی مجلسہ أحد»

جب استاد کی محفل میں جاؤ تو اسکے سامنے کسی دوسرے استاد کا نام مت لو کیونکہ یہ عمل استاد کو چھوٹا سمجھنے کے مترادف ہے. اب جس  کے بارے میں استاد کے سامنے بات کرنا چاہتے ہو ممکن ہے وہ مختلف زاویوں سے استاد سے بڑھ کر ہو لیکن جب تک استاد اجازت نہ دے کسی کتاب ، شخص یا کسی کے قول کو نقل مت کرو، کیونکہ تم اس استاد سے کسبِ علم کرنے آئے ہو. (بزمِ یار میں اغیار کا ذکر. عجب… مترجم) ان باتوں کو اچھی طرح ذہن نشین کر لو.  کیا آپ کے لئے ایسی باتوں میں کوئی فائدہ ہے؟  یہ کہنا چاہتے ہو کہ مجھے بھی جواب آتا ہے؟ یہ استاد کی بے ادبی ہے کہ اسکی کلاس میں بیٹھ کر دوسرے اساتید کے بارے میں گفتگو کرو.لذا استادی اور شاگردی کے حساب سے ہم نے پہلے بھی کہا ہے کہ یہ راہ زیادہ اساتذہ بنانے سے ہرگز طے نہیں ہوتی، ثانیاً ہماری کامل قلبی و روحی توجہ استاد کی جانب ہونی چاہیئے  چاہے استاد حاضر ہو چاہے غائب.
یہ چیز شاگرد کے لئے نہایت مفید اور اسکی فکر کو یکجا کرنے میں انتہائی موثر ہے؛ یعنی قلبی طور پر تمرکز پیدا کرنے کے بجائے مشوش ہو جاتا ہے اور توجہ اور تمرکز سیر و سلوک کے راستے کے مہم عوامل ہیں کیوں ہم اس سے غافل ہو جاتے ہیں؟
یہ چیزیں جو امام چہارم بیان فرما رہے ہیں یہ سب تمرکز اور توجہ کے گرد گھومتی ہیں. شاگرد کو احترام کرنا چاہیے اپنی آواز کو نیچا رکھے اور اسی طرح باقی آداب اس لئے بیان فرمائے ہیں تاکہ شاگرد کی قلبی توجہ فقط اور فقط استاد کی جانب مرکوز رہے یہ ایک ایسی اصل ہے جسکے تمام عرفاء قائل ہیں. 

8-«ولا تغتاب عندہ أحدا»

اور اسی طرح خدا نہ کرے شاگرد استاد کی موجودگی میں گناہ کبیرہ جیسے گناہ  مثلاً غیبت میں مبتلا ہو.  مثلاً اپنے استاد کی تعریف کرے اور دوسرے استاد کو برا بھلا کہے. 
کیا غیبت حرام نہیں ہے؟
 جب آپ غیبت کرتے ہیں اور استاد بھی غیبت کو سنتا ہے تو آپ نے اسکی فکر کو پراگندہ کر دیا ہے لذا کسی کو بھی برا نہ کہو نہ کسی اور استاد کا نام لو اور نہ کسی شخص کو برا بھلا کہو چاہے جو کوئی بھی ہو. 

9-«و أن تدفع عنہ أذا ذکر عندک بسوء»

شاگرد کا ایک اور وظیفہ یہ ہے کہ جیسے اسکے سامنے کوئی اسکے ماں، باپ، بھائی، بہن، یا دوست یا کسی اور رشتہ دار کو برا بھلا کہے تو وہاں اسکی غیرت اجازت نہیں دیتی اور وہ اس سے ناراض ہو جاتے ہیں کہ کیوں یہ شخص انکے بارے میں ایسی باتیں کر رہا ہے. اب آپ اس وقت کیوں چپ ہو جاتے ہیں جب پیٹھ پیچھے استاد کے بارے میں باتیں بنائی جاتی ہیں اس وقت آپ کیوں نہیں بولتے؟ اس وقت آپکو دفاع کرنا چاہیے کہ یہ سب باتیں غلط ہیں جو باتیں بول رہے ہو اسکا تمہارے پاس کوئی ثبوت ہے؟
مثلاً  بعض لوگ کہتے ہیں کہ آقا کمیلی نے دعویٰ کیا ہے کہ وہ کامل استاد ہیں. ہم نے کب اور کہاں کہا ہے کہ ہم کامل ہیں؟! کمالِ مطلق فقط خدا کی ذات ہے اور اسکے بعد آئمہ اطہار علیھم السلام ہیں. ہم کب امام زمان عجل اللہ اور آئمہ علیھم السلام تک پہنچ سکتے ہیں ہم انکے قدموں کی خاک کے برابر بھی نہیں ہیں ہم نے کب کہا ہے کہ ہم انکے برابر ہیں.پس جہاں پر بعض لوگ استاد پر تہمت لگائیں تو امام فرماتے ہیں اپنے استاد کا دفاع کرو. 

10-«و أن تستر عیوبہ »

اپنے استاد کے عیبوں کو چھپاؤ. ہر انسان میں عیب و نقص پائے جاتے ہیں اور ممکن ہے استاد میں بھی عیب موجود ہوں. پس آپ  کو چاہیے کہ استاد کے عیوب کو چھپاؤ. اگر استاد کے ساتھ سفر پہ جاؤ یا اسکے گھر جانے کا اتفاق ہو اور چند دن انکے ساتھ دوست بن کر رہو تو اگر بعض چیزیں استاد کے گھر میں دیکھو جو کسی اور نے نہ دیکھی ہوں تو اسے چھپاؤ، بلکہ انسان جب بھی کسی کے گھر جائے تو اسے گھر کی چھپی ہوئی جگہ کی جستجو نہیں کرنی چاہیے. شاید کتاب کے درمیان، الماری کے اوپر ایسی چیز موجود ہو جسکی طرف نگاہ نہیں کرنی چاہیے تھی یا یہی موبائل کہ ممکن ہے اس میں فیملی کی تصاویر موجود ہوں یا کوئی ایسا میسج ہو جسے نہیں پڑھنا چاہیے تھا.  مثلاً استاد کا موبائل اٹھا لو اور انکے میسیجز پڑھنا شروع کر دو  یا استاد کے باقی عیبوں کو عیاں کرنا چاہو.یہاں پر امام زین العابدین علیہ السلام یہ نہیں فرمانا چاہتے کہ یہ کامل استاد ہے اور اس میں بالکل عیب نہیں ہیں بلکہ امام فرماتے ہیں نقص پائے جاتے ہیں لیکن اے شاگرد تجھے چاہیے کہ ان عیبوں کو چھپاؤ. ممکن ہے بات چیت کرنے میں،اندازِ بیاں اور علم می ناقص ہو چونکہ یہ سب کمالات نسبی ہیں اور ہم نے بھی اس حوالے سے کوئی دعویٰ نہیں کیا.  فرماتے ہیں اگر آپ نے عیبوں کو دیکھا تو اصلاً انکو فاش نہیں کرنا چاہیے. 

11-«و تظھر مناقبہ»

یعنی استاد کے نواقص کو افشاں نہ کرو لیکن اسکے برعکس اگر استاد کی خوبیاں مشاہدہ کرو تو اسےادھر اُدھر پھیلاؤ اور لوگوں کے درمیان استاد کے مقام کو بلند کرو نہ کہ چھوٹا کرو. خلاصہ کلام یہ ہے کہ امام فرماتے ہیں:  اگر استاد میں مناقب اور خوبیاں پائی جائیں تو انہی خوبیوں کو بیان کرو کوتاہیوں کو نہیں. 

12-«ولا تجالس لہ عدوا»

یہ بھی انتہائی اہم مسئلہ ہے چونکہ استاد کے بھی آئمہ علیھم السلام کی طرح دشمن ہوں کیا ایسے ہو سکتا ہے کہ اسکے دشمن نہ ہوں. یہاں تک کہ آئمہ علیہم السلام کے اپنے رشتہ داروں میں بھی دشمن ہوتے تھے لیکن ہمارے امام انہیں معاف فرماتے تھے. استادِ اخلاق بھی ممکن ہے عفو و درگزر سے کام لے. لیکن آپکا فریضہ کیا ہے؟؟ اگر آپ دیکھیں کہ آپکے استاد اور فلاں شخص میں دشمنی پیدا ہو گئی ہے اور اس شخص کی استاد کے ساتھ آمدورفت نہیں ہے اور اپنے کام سے کام رکھتا ہے تو کیا آپ پھر بھی اسکے ساتھ آمدورفت رکھو گے؟ اگر اس نے استاد کی بے احترامی  کی ہے اور جیسے پہلے مخلص تھا اب ویسے نہیں رہا اور ظاہری طور پر ایک دشمن جیسا عمل سر انجام دے رہا ہے. مثال کے طور پر اگر کوئی شخص ایسا ہی ہے چاہے ایک نفر ہو یا دو کم ہوں یا زیادہ، مرد ہو یا عورت، عالم ہو یا جاہل، جو کوئی بھی ہو جب اسکے استاد کے ساتھ اچھے تعلقات نہیں ہیں تو تم اسکے ساتھ کیوں رفاقت و دوستی رکھنا چاہتے ہو ؟  استاد کے ساتھ بھی رہنا چاہتے ہو اور اسے بھی ہاتھ سے گنوانا نہیں چاہتے؟ نہیں ایسے بالکل نہیں ہو سکتا. اس بارے میں ایک روایت ذکر ہوئی ہے جس میں فرماتے ہیں : استاد کا دوست تمہارا بھی دوست ہے،  اور استاد کا دشمن، تمہارا بھی دشمن ہے، استاد کے دشمن کا دوست نیز تمہارا دشمن ہے. مثلاً ایک شخص نے استاد کے دشمن سے دوستی کر لی ہے تو تمہیں چاہیے کہ ان دونوں کی مخالفت کرو پہلا وہ شخص جو استاد کا دشمن ہے دوسرا وہ ہے جس نے استاد کے دشمن کے ساتھ باقاعدہ رفاقت کا رشتہ قائم کر لیا ہے تو تمہیں ان دونوں سے دور رہنا ہے اور دوستی وغیرہ نہیں رکھنی تاکہ وہ سمجھ لیں کہ آپکی راہ ان سے جدا ہے. اور یہ مسئلہ انتہائی اہم ہے. 
مجھے یاد ہے کہ علامہ طھرانی کے دور میں، انکی چند افراد یہاں تک کہ خود انکے رشتہ داروں کے درمیان میں بعض افراد کیساتھ مخاصمت تھی چونکہ استاد کے بھی دوسرے لوگوں کی طرح بعض لوگوں کے ساتھ مسائل ہو سکتے ہیں اور پھر تعلقات پر اثر انداز ہوتے ہیں مجھے اچھی طرح یاد ہے کہ جب ہم نے دیکھا فلاں شخص آقا حدادؒ کے غضب کا نشانہ بنے ہوئے ہیں تو ہم نے اس سے رابطہ ختم کر دیا یا اسی طرح کربلا میں آقا نے دو نفر پر قہر و غضب کا اظہار فرمایا تو ہم نے بھی ان سے اپنی راہیں جدا کر لیں درحالیکہ پہلے انکے ساتھ رفت و آمد رکھتے تھے پھر ہم نے کہا چونکہ استاد نے آپکے ساتھ رابطہ ختم کر دیا ہے تو ہم بھی آپکے ساتھ تعلق ختم کرتے ہیں. یہ حکم علمِ نفسیات میں ایسے ہی ہے. 

13-«ولا تعادی لہ ولیا»

جس طرح ہم نے استاد کے دشمن کیساتھ اپنی راہیں جدا کرنی ہیں اسکے برعکس استاد کے دوست کے ساتھ تعلقات کو پائیدار بنانا ہے اگر دیکھو کہ فلاں شخص استاد کا دوست ہے تو کبھی بھی اسکے ساتھ دشمنی نہ کرو اگر ذاتی اختلاف بھی ہو تب بھی چشم پوشی کرو. 
اگر ان تیرہ آداب کی رعایت کی اور ان کو لکھ کر اپنی جیب میں رکھا اور خود سے کہا کہ آج رات سے ایک ایک دستور پر عمل شروع کروں گا اگر تمہاری یہ نیت ہوئی، 

14-«و أذا فعلت ذلک شھدت لک ملائکہ اللہ بأنک  قصدت و تعلمت علمہ للہ جل اسمہ لا للناس »

 (اگر نیت خالص ہوئی) تو تمام فرشتے اللہ تعالٰی کے حضور گواہی دیں گے کہ تمہاری اس استاد کے ساتھ رفت و آمد خداوند متعال کی خوشنودی کے لئے تھی. 
قصدتہ یعنی استاد کا ارادہ کرنا، اسکے گھر اور اسکی کلاس میں گئے، استاد سے محبت کرتے تھے اور اسکے سامنے زانوئے تلمذ تہ کئے *و تعلمت علمہ للہ* اور اس سے کسبِ علم کیا، تو ملائکہ شہادت دیں گے کہ یہ سب کچھ خداوند کریم کی ذات کے لئے تھا، لیکن اگر نیت خالص نہ ہوئی تو یہ سب لوگوں کو دکھانے کے لئے تھا 
پس اگر ان شرائط اور آداب کی رعایت نہ کی جائے تو یہ خدا کے لئے نہیں ہے اور اس عمل سے معلوم ہو جائے گا کہ نیت خالص اور خدا کے لیے نہیں تھی.
آپ استاد کے ساتھ آمدورفت رکھتے ہیں لیکن ان شرائط کی رعایت نہیں کرتے تو حتماً اللہ کے لئے نہیں ہے. اس عمل سے تم شہرت چاہتے ہو تاکہ لوگ تمہاری تعریف کریں و بس.. بہرحال آپکی یہ عمل خدا کے لئے نہیں تھا. 
ہم امید کرتے ہیں کہ تمام احباب ان آداب کی رعایت کریں اور سننے والوں کو چاہیے کہ وہ ان آداب پر عمل کریں جو کہ امامِ معصوم کی زبان سے صادر ہوئے ہیں اپنی طرف سے ہم نے کچھ نہیں کہا ہے اور خداوند متعال اس سیر و سلوک کی راہ آپکی مدد فرمائے.
و صلی اللہ علی محمد و آلہ الطاہرین
[1]– رسالہ حقوق امام سجادؑ، تحف العقول، ابن شعبہ حرانی، مؤسسہ النشر الاسلامی، صفحہ 260 ، باقی نسخوں میں حق استاد مختلف طریقوں سے ذکر ہوا ہے:
فاما حق سائسک بالعلم فالتعظیم لہ و التوقیر لمجلسہ و حسن الاستماع الیہ و الأقبال علیہ و المعونہ لہ علی نفسک فیما لا غنی بک عنہ و من العلم بان تفرغ لہ عقلک و تحضرہ فھمک و تذکی لہ (قلبک) و تجلی لہ بصرک بترک اللذات و نقص الشھوات و ان تعلم انک فیما القی(ألیک) رسولہ ألی من لقیک من اھل الجھل فلزمک حسن التادیہ عنہ ألیھم ولا تخنہ فی تادیہ رسالتہ والقیام بھا عنہ أذا تقلدتھا ولا حول ولا قوۃ الا باللہ. 
ترجمہ:
بہرحال تجھ پر اسکا حق جس نے تجھے زیور علم سے آراستہ کیا یہ ہے کہ اسکی تعظیم و تکریم میں ذرہ بھر کوتاہی نہ کرو؛ اسکی مجلس اور وجود کو بڑا شمار کرو اور اسکے درس و تدریس کو غور سے سنو اور اسکی گفتگو کا خندہ پیشانی سے استقبال کرو. 
اگر چاہتے ہو کہ استاد تجھے درس سمجھانے میں کامیاب رہے تو تمہیں چاہیے کہ اس کام میں استاد کی مدد کرو(یعنی اسکی تمام باتوں پر عمل کرو) اس بیان کے ساتھ کہ استاد کی گفتگو اور درس کو سننے کے لئے اپنے ذہن کو مکمل آمادہ رکھو اور دقت سے کام لو اور دل کو کو چیز سنتے ہو اسکے قبول کرنے کے لئے پاک کرو درس کے وقت خیالات اور واقعات کو ذہن سے نکال دو اور شھوت رانی کے بارے میں فکر نہ کرو. 
جان لو کہ تم استاد کی جانب سے ایک ذمہ داری رکھتے ہو وہ یہ کہ جو کچھ استاد سے سیکھا ہے اسے آگے پھیلاؤ اور جیسے سنا ہے بغیر کسی کمی و بیشی کے ویسے ہی آگے منتقل کرو اور قوت و طاقت نہیں ہے مگر خداوند متعال کے لئے.
[2]– قرآن کریم،سورہ 17: الأسراء ، آیات 23،24- ترجمہ: آپکے پروردگار نے مقرر کر دیا ہے کہ اسکے سوا کسی کی پرستش نہ کرو اور اپنے ماں باپ کے ساتھ احسان کرو اگر ان میں سے ایک یا دونوں بڑھاپے کی عمر کو پہنچ جائیں تو انہیں اُف تک نہ کہو اور ان سے جھگڑا  نہ کرو اور ان سے شائستہ انداز میں بات کرو.(23)
اور مہربانی اور شفقت اپنے پروں کو انکے لئے پھیلا دو اور کہو اے پروردگار ان دونوں پر رحم فرما جیسا کہ انہوں نے بچپن میں مجھ پر رحم کیا(24)
[3]– عیون اخبار الرضا، جلد 1 صفحہ 92
almatalebo-solookieh

فهرست مطالب

اشتراک گذاری در facebook
اشتراک گذاری در twitter
اشتراک گذاری در google
اشتراک گذاری در linkedin
اشتراک گذاری در digg
اشتراک گذاری در whatsapp
اشتراک گذاری در email
اشتراک گذاری در print
اشتراک گذاری در telegram