دسوار مطلب، کمال کی طرف پرواز


  آیت اللہ کمیلی خراسانی کے خطاب کا متن, کمال کے عنوان کے تحت, کتاب مطالب السلوکیہ کے دسویں درس سے..  
*درس کا متن*
اگر سالک دنیا میں کمال کی منزل تک پہنچ گیا, تو پہنچ گیا لیکن اگر کمال کی منزل تک پہنچنے سے پہلے وفات پا جائے, تو اسکی موت شھادت کی موت ہوگی اور وہ ایسا مہاجر ہے جس نے راہ خدا کی سمت ہجرت کی ہے اور وصال کے بعد کمال تک پہنچ جائے گا خداوند عالم کا ارشاد ربانی ہے؛ «اگر کوئی شخص خدا اور رسول کی طرف ہجرت کرنے کے ارادہ سے گھر سے باہر  نکلے اور اسی حالت میں مر جائے تو اسکا اجر خدا کے ذمہ ہے» (1)  
*درس کی تشریح* 
*کیا کمال تک پہنچنے کا تعلق فقط اسی دارِ دنیا سے ہے؟*  
اس بحث کا تعلق عرفانِ عملی کی ابحاث سے ہے اور اسکا موضوع انسان کا کمال تک پہنچنا ہے. یہاں پر جو سوال پیش آتا ہے وہ یہ ہے کہ کیا سالک, سیر و سلوک کے تمام مراتب و درجات کو فقط اسی دنیا میں حاصل کرے یا ممکن ہے کہ بعض کمالات کو برزخ میں حاصل کرے اور وہاں کمال کی منزل تک پہنچ جائے؟
اسکا مختصر جواب یہ ہے    
*کہ کمال تک پہنچنا اسی دنیا کے ساتھ مشروط نہیں ہے*  بلکہ اس بارے میں ہم کہ چکے ہیں کہ انسانِ کامل ہونے کی شرط یہ نہیں ہے کہ سالک تمام مراتب پر اسی دنیا میں فائز ہو؛ اگر اس نے اسی دنیا میں تمام کمالات حاصل کر لئے تو بہتر؛ لیکن اگر سالک اعلیٰ مراتب تک پہنچنے کی نیت سے سیر و سلوک کی راہ پر چل نکلے اور سخت محنت اور کوشش کرے اور ھوای نفس کی مخالفت میں مصروفِ عمل ہو اور اسی دوران اس پر موت آن پڑے اور دارِ دنیا سے عالَم بقا کی طرف سدھار جائے تو کیا یہ کہا جا سکتا ہے کہ وہ اُس دنیا میں کمال کی منزل تک نہیں پہنچے گا؟! جبکہ ہم کہتے ہیں کہ اگر کوئی مجاہد و مبارز شخص جہاد فی سبیل اللہ کے لئے خود کو تیار کرے اور اس کی ٹریننگ بھی حاصل کر کے خود کو مسلح کرے اور گھر اور فیملی سے جدا ہو کر دشمن سے قتال و جنگ کرنے کے لئے میدانِ جہاد کی طرف روانہ ہو جائے, لیکن وظیفہ کی انجام دہی کے دوران راستے میں ہی انتقال کر جائے(جیسا کہ ہر انسان نے موت کا ذائقہ چکھنا ہے) تو شہید مرتا ہے اور اپنے اعلیٰ مقام تک پہنچ جاتا ہے لیکن اگر کوئی شخص معرفتِ نفس, اور قربِ خداوندی کے لئے  نفس کیساتھ مجاہدت کی حالت میں اس دنیا سے چلا جائے تو کیا اس نے اپنے ہدف و مقصد کو نہیں پایا. ؟ (یعنی جب ایک شھید اپنے ہدف و مقصد تک پہنچ جاتا ہے تو سالک بدرجہ اولیٰ پہنچتا ہے کیونکہ وہ جہاد اکبر میں مصروفِ عمل ہے)   اس چیز کا ذکر قرآن مجید میں ہوا ہے جہاں خداوند متعال ارشاد فرماتے ہیں : *«وَ مَن یَخْرُج مِن بَیْتِہ مُھَاجِرًا أِلَی اللہ وَ رَسُولہ ثُمَّ یُدْرِکْہ المَوْت فَقَدْ وَقَعَ أَجْرُہ عَلَی اللَّہ»* اور جو کوئی اپنے گھر سے اللہ اور رسول کی طرف ہجرت کر کے نکلے پھر اس کو موت پالے تو اللہ کے ہاں اس کا ثواب طے ہو چکا. جو شخص اس نیت کیساتھ گھر سے نکلے کہ میں خدا اور رسول کے لئے ہجرت کر رہا ہوں تو در حقیقت اس نے کفر اور کافر معاشرے اور اپنی نفسانی خواہشات سے ہجرت کی ہے اور اس راہ میں اُس نے زحمتیں اٹھائیں کافی مدت تک اس راہ کا راہی بنا رہا ہے   *«ثُمَّ یُدْرِکْہ المَوت»* لیکن جب اسے موت پا لے.تو یہاں پر خداوند عالم فرماتا ہے *« فقد وَقَعَ اَجْرُہ عَلی اللہِ»* پس اسکا اجر و ثواب,خدا کے ذمے ہے اور اس نے عظیم ثواب کو پا لیا ہے اور وہ فیضِ الہی سے محروم نہیں ہوگا. پس اس بنا پر ایک وقت ایسا آتا ہے کہ مجاہد,میدان جنگ میں جاتا ہے دشمن کو بھی مارتا ہے اور خود بھی اس راہ میں شھید ہو جاتا ہے لیکن بعض اوقات وہ مجاہد مقصد تک پہنچنے سے پہلے اپنے وظیفہ کی انجام دہی کے لئے راستے میں ہی وفات پا جاتا ہے تو یہ بھی ضرور اجر پائے گا.   اگر ہم ایک(مجاہد) کے لئے شہادت کی منزل کو پا لینے کے قائل ہوں تو پس اس سالک کے لئے کیوں قائل نہ ہوں جس نے اپنی ساری زندگی اسی راہ میں قربان کر دی اور فنا فی اللہ ہو گیا لیکن موت آنے کی وجہ سے اس اصلی مقصد و ہدف تک نہیں پہنچا.؟ کیا کہا جا سکتا ہے کہ خداوند مہربان اور رحیم اسے اعلی مراتب سے محروم کرے گا ؟ جبکہ یہی آیت جو کہ مجاہدین فی سبیل اللہ جو کہ جہاد اصغر میں مصروفِ عمل ہیں کے بارے میں کہی گئی ہے یہی آیت نیز سالک الی اللہ جو کہ جہاد اکبر میں مشغول ہے کے بارے میں بھی صادق آتی ہے اور وہ یہ کہ اگر سالک اپنی منزلِ مقصود تک نہیں پہنچا تو موت نے اسے جا لیا تو خدا بھی اسے اعلی مقام سے محروم نہیں کرے گا اور مرنے کے بعد بھی اسکے لئے تکامل کا راستہ کھلا ہے اگر کہا جائے کہ برزخ میں کوئی کامل نہیں بن سکتا تو جواباً کہا جائے گا : کہ پس کیوں پیغمبر صلی اللہ علیہ و آلہ اتنی عزت و عظمت اور اعلیٰ مقام کے باوجود اپنی امت سے تقاضا کرتے ہیں کہ انکے مزید درجات کی بلندی کے لئے اس پر *«صلوات»* و درود بھیجیں؟ ہمارے پاس اس بارے میں کافی دعائیں وارد ہوئی ہیں مثلاً ایک جگہ  یوں آیا ہے «اے پروردگار!  اے خدا تیرے حبیب نے امت تک دین پہنچانے کے لئے جو زحمتیں اور کوششیں انجام دی ہیں اور دنیا سے تشریف لے گئے ہیں انکے بدلے میں انہیں مقام محمود پر فائز فرما تاکہ کوئی بھی اسکے مرتبہ تک نہ پہنچ سکے اور تیرے حضور میں کوئی بھی مَلکِ مقرب یا نبی مرسل انکی برابری نہ کر سکے.»   اگرچہ کہا جائے کہ پیغمبر اکرم صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم اس دنیا سے چلے گئے ہیں اور جس مقام و مرتبہ پر فائز تھے بس ویسے ہی رہیں گے اور عَالمِ برزخ میں کامل ہونے کی کوئی راہ نہیں ہے، نہ پیغمبر اکرم (ص) کے لئے نہ کسی امام کے لئے اور نہ ہی کسی ولی خدا کے لئے….  تو پھر ان دعاؤں کا معنی اور مفہوم کیا ہوگا؟ پس اس بنا پر جو اس دنیا کا خدا ہے وہی برزخ اور آخرت کا نیز خدا ہے وہ اپنے بندوں کے اوپر ہر حالت اور ہر مرتبے میں موجود ہے؛ پس جب ہم  بھیک مانگنے کے لئے اسکے حضور ہاتھ پھیلائیں اور اس سے طلبِ حاجت کریں، تو وہ اپنے بندے کو چاہے اسی دنیا میں چاہے مرنے کے بعد، اسے کمال کے مراتب تک پہنچا دے گا.   پس میدان جنگ میں بیرونی دشمنوں کیساتھ جسم اور بدن کا فنا ہو جانا ایک مرتبہ ہے لیکن سالک کو کمالات تک پہنچنے اور روح کو راہِ خدا میں فنا کرنے کے لئے زحمت و ریاضت اٹھانی پڑتی ہے اور اپنے آپ کو مراقبہ اور مشارطہ(اپنے آپکے ساتھ شرط باندھنا) کے ساتھ خود کو پابند کرتا ہے اور ان تمام دستورات کو بجا لاتا ہے جو کہ اس راہ میں بیان ہوئے ہیں اور سالہا سال اس راہ میں پائیدار رہتا ہے تو اسکا مرتبہ یقیناً اس مجاہد فی سبیل اللہ سے بلند ہے. پس آپ خوش نہ ہوں اور یہ نہ کہیں کہ : ہم تو ایسے کمالات کو حاصل نہیں کر سکتے پس کیوں اپنے آپکو زحمت میں ڈالیں اور اس راہ کا انتخاب کریں، ہم تو اس راہ میں ،میرزا علی قاضی یا سلمان و ابوذر و مقداد کی طرح نہیں بن سکتے!  ہم کہاں اور وہ سخت محنت و کوششیں کہاں جو وہ لوگ کرتے تھے اور وہ شب بیداری اور تہجد کا پڑھنا اور وہ سب مراقبت کہاں ؟! اب جبکہ ہم نہیں کر سکتے تو ہمارے لئے اس راہ میں داخل ہونے کا کوئی فائدہ نہیں ہے پس بہتر یہی ہے کہ ہم اس راہ میں داخل ہی نہ ہوں.! ہمارے پاس کچھ بھی نہیں ہے اور اس چند روزہ زندگی میں ہم ان بڑے مراتب تک نہیں پہنچ سکتے بلکہ یہ ان لوگوں کا کام ہے جو اسکے اہل ہیں وہ آئیں اور اس میدان میں وارد ہوں اور فائدہ بھی حاصل کریں.!    لیکن ہم اس کے جواب میں عرض کریں گے کہ: نہ عزیز من!  ایسا نہیں ہے!  اگر خداوند متعال آپکی سچی نیت کو دیکھے کہ آپ واقعاً اس راہ میں مقاومت کر رہے ہیں اور واقعاً عالی مراتب تک پہنچنا چاہتے ہیں اور کوشش بھی جاری رکھی ہوئی ہے البتہ اپنی طاقت اور وسعت کے مطابق عرفانی اور شرعی وظائف  پر عمل کر رہے ہیں تو خداوند متعال کی جانب سے ضرور عنایت ہوگی؛ اب جبکہ سالک وسطِ راہ میں ایکسیڈنٹ یا بیماری کی وجہ چل بستا ہے جبکہ ابھی تک اس دنیا میں وہ کمال کی منزل تک نہیں پہنچا تو کیا وہ آخرت میں بھی کمال تک نہیں پہنچے گا؟ اور کیا اللہ تعالیٰ اسے محروم فرما دے گا؟؟ نہیں!  بلکہ اگر خداوند متعال نے اسکی نیت کے راز کو دیکھا کہ یہ سالک ایسا تھا کہ اگر زندہ رہ جاتا تو کمال تک پہنچ جاتا لیکن اتنی عمر باقی نہیں بچی کہ کمالات تک پہنچتا، پس اللہ تعالٰی ضرور اسے کمال تک پہنچائے گا.    شاید یہاں پر یہ سوال پیش آئے کہ ایک جہنمی شخص جو کہ چند سال اس دنیا میں فسق و فجور میں مگن رہا اور پھر اسے موت آ گئی، تو کیا یہ عدالت الہی سے سازگار ہے کہ اسے ہمیشہ کے لئے جہنم میں ڈال دے اور ایک دوسرے شخص کو جو کہ چند سال خدا کی بندگی کرتا رہا، اللہ تعالیٰ اسے بہشت میں بھیج دے اور وہ وہاں ہمیشہ کے لئے رہے؟!  اسکے جواب میں ہم کہیں گے : جی ہاں! یہ بات خدا کی عدالت سے سازگار ہے!  کیونکہ خداوند عالم اس کافر کی نیت کو دیکھتا ہے اور دیکھتا ہے کہ اگر یہ فاسق و فاجر انسان اگر نوح علیہ السلام جتنی عمر بھی جیتا یا دنیا ختم ہونے تک زندہ رہتا، تب بھی اسی فسق و فجور میں مبتلا رہتا! دوسری طرف خداوند عالم مومن کی نیت کو دیکھتا ہے چونکہ وہ آزمائش اور امتحان میں کامیاب ہو چکا ہے اور دوسری طرف سے خداوند متعال جانتا ہے کہ دنیا ختم ہونے تک کبھی بھی اطاعت الہی سے ہاتھ نہ کھینچتا. لذا خداوند عالم اس نیت کی وجہ سے اسے بہشت اور اسے جہنم میں داخل کرے گا پس اہم چیز «حقیقی نیت» ہے، اس راہ میں نیت انتہائی اہم ہے. پیغمبر اکرم صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم فرماتے ہیں: *«انما الأعمال بالنیات، و لکلّ امرء ما نوی، و علی نوایاکم تُرزَقون؛»* یقیناً اعمال کا دارومدار نیت پر ہے اور ہر شخص کے لئے وہی کچھ ہے جسکی اس نے نیت کی ہے اور آپ لوگ اپنی نیت کے معیار کیساتھ رزق و روزی کہا رہے ہو»    پس بنا بر این ہمیں محنت و کوشش کرنی چاہیے تاکہ اپنی نیت کو صحیح اور قوی کر سکیں اور اس راہ میں خداوند متعال سے دعا کریں کہ ہمیں مرنے سے پہلے ان کمالات تک پہنچا لیکن اگر ہم کامیاب نہ ہوے چونکہ یہ کام ہمارے تمہارے بس کی بات تو نہیں ہے سارے امور  خدا کے ہاتھ میں ہیں، اگر چاہے تو بندے کی روح قبض کر لے گا، لیکن وہاں بھی ترقی و تکامل کا راہ موجود ہے اور ہمیں مایوس نہیں ہونا چاہیے. لیکن ایک سند جو ان مطالب کے بارے میں ہے وہ حدیث قدسی ہے جس میں خداوند منان ارشاد فرماتا ہے:  *«یابن آدم! أکثرا من الزّاد فأن الطریق بعیدٌ»* اے آدمؑ کی اولاد!  زیادہ زادِ راہ مہیا کرو، سعی و کوشش کرو تاکہ منزل مقصود تک پہنچ جاؤ، کیونکہ راستہ نہایت طولانی اور دراز ہے.»   *«و جَدِّد الّسفینہ فأن البحر عَمیقٌ»؛* اے فرزند آدمؑ! اس دنیا میں اپنی کشتی کو مضبوط بناؤ، اسکے وسائل اور اوزار کو نیا کرو، چونکہ اس کشتی کے ذریعے ایک ایسے دریا میں جانا چاہتے ہو جو بہت گہرا ہے اگر خدا نہ کرے تمہاری کشتی کسی جگہ سے ٹوٹ جائے اور اس دریا میں غرق ہو جاؤ تو پھر مصیبت ہی مصیبت ہے!    *«و خَفّف الحمل فأن الصراط دَقیقٌ دقیق»؛* اے فرزند آدمؑ! گناہوں کے بوجھ کو ہلکا کرو، کیونکہ پل صراط انتہائی دقیق ہے اور وہ جگہ انتہائی خطرناک ہے؛ اگر خدا نہ کرے انسان کا پاؤں،پل کے اوپر سے پھسل جائے تو عذابِ الھی میں گرفتار ہو جائے گا.    *«و أخفض العمل فأن الناس بصیرٌ بصیر»؛* اے آدمؑ کے بیٹے!  عبادات اور معاملات میں سے جو اعمال انجام دیتے ہو کوشش کرنا اس میں گناہ کی نیت، ریا، شھرت اور خودنمائی نہ ہو کیونکہ جس ذات نے تمہارے برے اور اچھے اعمال کو خدا کرنا ہے وہ کوئی معمولی ہستی نہیں ہے بلکہ وہ نہایت بصیر ہے لذا ہمیں چاہیے کہ خدا کے حضور میں اسکی  اسکی حرمت کو پامال نہ کریں اور جان لیں کہ خداوند متعال ہمارے سب اعمال پر ناظر ہے.      *«و أخّر نومی الی القبر، و فخرک الی المیزان و راحت الی الأخر»؛* اے ابن آدمؑ! اس قدر اس دنیا میں نہ سونا!  اگر سونا بھی ہے تو کم سو، چونکہ جب آخرت اور قبر کی طرف رہسپار ہوئے تو وہاں بہت سوں گے!  اور وہاں صدیوں تمہارے اوپر گزر جائیں گی؛ کیسے لوگ تھے لیکن مرنے کے بعد ان پر سے صدیاں گزر گئیں.  لذا اپنے وقت کو نیند کرنے میں برباد نہ کرو، اسی طرح اس دنیا میں دوسروں پر فخر و مباہات بھی نہ کرنا، کیونکہ کرامت کا میزان و معیار کام کی کیفیت پر منحصر ہے ایسا نہیں ہے کہ تم خدا کی نگاہ کی دور ہو اور وہ عیش و عشرت جسے اس دنیا میں حاصل کرنا چاہتے ہو ایسا کرو کہ ان سکون و راحت کو آخرت کی طرف لے جاؤ کیونکہ وہاں تمہیں اسکی ضرورت ہوگی. آخرت میں ہر انسان آسائش و راحت اور عذاب الہی سے دور رہنے کی طلب رکھتا ہے؛ پس اگر اس دنیا میں خود کو تھوڑا بہت رنج دیا اور سختیاں اٹھائیں تو عیش و عشرت کو اس جہان میں پا لو گے.  *«و کُن لی، أکن لک»؛* اے میرے بندہ تو میرا ہو جا، پس اگر تو نے ایسا کیا اور تمام امور کو میرے لئے انجام دیا اور مجھ اپنا دوست قرار دیا تو میں تیرا ہو جاؤں گا.   *«و تقرب ألیّ باستھانک الدنیا»؛* اگر مجھ سے نزدیک ہونا چاہتے ہو تو دنیا کو اپنی نظر میں ذلیل و رسوا کر لو.اس قدر دنیا کی رنگینیوں میں مگن نہ ہو جاؤ!  اس قدر اس فریب دینے والے دنیا سے دل نہ لگاؤ! اگر ممکن ہے تو دنیا کو اپنی نظر میں ذلیل و خوار کرو خود بخود میرے نزدیک ہو جاؤ گے.      *«و تُبَعِّدْ عَنِ  النار ببُغضِ و حُب الابرار»؛* اگر اپنے آپکو میرے غضب کی آگ سے دور کرنا چاہتے ہو تو ایک کام کرو کہ اس دنیا میں فاجروں کے برے کاموں سے نفرت کرو اور جو حدود الہی کو توڑتے ہیں ان سے دشمنی کرو اور اسکے بدلے میں دوستان خدا سے دوستی رکھو.   *«فأن اللہ لا یُضیع أجر المُحسنین»؛* اگر ان کاموں کو انجام دیا تو خداوند بھی محسنین کے اجر کو کبھی ضائع نہیں کرے گا.       *مذکورہ حدیث کا خلاصہ* «اے فرزند آدمؑ! آخرت کے لئے زادِ راہ زیادہ مہیا کرو کیونکہ راہ بہت طویل ہے. اپنی کشتی کو نیا کرو، کیونکہ دریا بہت عمیق ہے، اپنے بار کو کم کرو کیونکہ جس پل سے گزرنا ہے وہ نہایت باریک ہے. اپنے عمل کو خالص کرو چونکہ جو اچھے کو برے سے جدا کرنے والا ہے وہ نہایت بینا ہے. نیند کو قبر تک موخر کرو، فخر و مباہات کو اعمال کے تولے جانے تک موخر کرو، عیش و عشرت کو آخرت کے لئے چھوڑ دو. تو میرے ہو جا میں تیرا ہو جاؤں گا. دنیا سے بے توجہی کر کے مجھ سے نزدیک ہو جاؤ. گناہگاروں سے دشمنی اور نیکوکاروں سے محبت کے ذریعے خود کو آتش جہنم سے دور کرو. بے شک خداوند قدوس نیکوکاروں کے اجر کو ضائع نہیں فرمائیں گے».     (1) سورہ نساء آیت 100
almatalebo-solookieh

فهرست مطالب

اشتراک گذاری در facebook
اشتراک گذاری در twitter
اشتراک گذاری در google
اشتراک گذاری در linkedin
اشتراک گذاری در digg
اشتراک گذاری در whatsapp
اشتراک گذاری در email
اشتراک گذاری در print
اشتراک گذاری در telegram