*کتاب مصباح الشریعہ کا باٸیسواں باب جسکا موضوع آداب حج ہے* *آیت اللہ کمیلی خراسانی کے بیانات کتاب مصباح الشریعہ کے بائیسویں باب کی شرح میں جو کہ آداب حج کے بارے میں ہے* *عربی متن* *الباب الثانی و العشرون في الحج* *«قَالَ الصَّادِقُ إِذَا أَرَدْتَ الْحَجَّ فَجَرِّدْ قَلْبَكَ لِلَّهِ عَزَّ وَ جَلَّ مِنْ قَبْلِ عَزْمِكَ مِنْ كُلِّ شَاغِلٍ وَ حِجابِ كُلِّ حَاجِبٍ وَ فَوِّضْ أُمُورَكَ كُلَّهَا إِلَى خَالِقِكَ وَ تَوَكَّلْ عَلَيْهِ فِي جَمِيعِ مَا يَظْهَرُ مِنْ حَرَكَاتِكَ وَ سُكُونِكَ وَ سَلِّمْ لِقَضَائِهِ وَ حُكْمِهِ وَ قَدَرِهِ وَ دَعِ الدُّنْيَا وَ الرَّاحَةَ وَ الْخَلْقَ وَ اخْرُجْ مِنْ حُقُوقٍ تَلْزَمُكَ مِنْ جِهَةِ الْمَخْلُوقِينَ وَ لَا تَعْتَمِدْ عَلَى زَادِكَ وَ رَاحِلَتِكَ وَ أَصْحَابِكَ وَ قُوَّتِكَ وَ شَبَابِكَ وَ مَالِكَ مَخَافَةَ أَنْ یَصِيروُا لَكَ عَدُوّاً وَ وَبَالًا فَإِنَّ مَن ادَّعَى رِضَا اللَّهِ وَ اعتَمَدَ عَلَى شَيءٍ صَيَّرَهُ عَلَيهِ عَدُوًّا وَ وَبَالًا لِيَعْلَمَ أَنَّهُ لَيْسَ قُوَّةٌ وَ لَا حِيلَةٌ وَ لَا لِأَحَدٍ إِلَّا بِعِصْمَةِ اللَّهِ تَعَالَى وَ تَوْفِيقِهِ وَ اسْتَعِدَّ اسْتِعْدَادَ مَنْ لَا يَرْجُو الرُّجُوعَ وَ أَحْسِنِ الصُّحْبَةَ وَ رَاعِ أَوْقَاتَ فَرَائِضِ اللَّهِ تَعَالَى وَ سُنَنَ نَبِيِّهِ وَ مَا يَجِبُ عَلَيْكَ مِنَ الْأَدَبِ وَ الِاحْتِمَالِ وَ الصَّبْرِ وَ الشُّكْرِ وَ الشَّفَقَةِ وَ السَّخَاءِ وَ إِيْثَارِ الزَّادِّ عَلَى دَوَامِ الْأَوْقَاتِ ثُمَّ اغْتَسِلْ بِمَاءِ التَّوْبَةِ الْخَالِصَةِ ذُنُوبَك وَ الْبَسْ كِسْوَةَ الصِّدْقِ وَ الصَّفَاءِ وَ الْخُضُوعِ وَ الْخُشُوعِ وَ أَحْرِمْ عَنْ كُلِّ شَيْءٍ يَمْنَعُكَ عَنْ ذِكْرِ اللَّهِ عَزَّ وَ جَلَّ وَ يَحْجُبُكَ عَنْ طَاعَتِهِ وَ لَبِّ بِمَعْنَى إِجَابَةٍ صَافِيَةٍ خَالِصَةٍ زَاكِيَةٍ لِلَّهِ عَزَّ وَ جَلَّ فِي دَعْوَتِكَ لَهُ مُتَمَسِّكاً بِالْعُرْوَةِ الْوُثْقَى وَ طُفْ بِقَلْبِكَ مَعَ الْمَلَائِكَةِ حَوْلَ الْعَرْشِ كَطَوَافِكَ مَعَ الْمُسْلِمِينَ بِنَفْسِكَ حَوْلَ الْبَيْتِ وَ هَرْوِلْ هَرْوَلَةً مِنْ هَوَاكَ وَ تَبَرِّياً مِنْ جَمِيعِ حَوْلِكَ وَ قُوَّتِكَ وَ اخْرُجْ مِنْ غَفْلَتِكَ وَ زَلَّاتِكَ بِخُرُوجِكَ إِلَى مِنًى وَ لَا تَمَنَّ مَا لَا يَحِلُّ لَكَ وَ لَا تَسْتَحِقُّهُ وَ اعْتَرِفْ بِالْخَطَایَا بِالْعَرَفَاتِ وَ جَدِّدْ عَهْدَكَ عِنْدَ اللَّهِ تَعَالَى بِوَحْدَانِيَّتِهِ وَ تَقَرَّبْ إِلَيْهِ ذَائِقَهُ بِمُزْدَلِفَةَ وَ اصْعَدْ بِرُوحِكَ إِلَى الْمَلَإِ الْأَعْلَى بِصُعُودِكَ إِلَى الْجَبَلِ وَ اذْبَحْ حَنْجَرَتَیِ الْهَوَى وَ الطَّمَعِ عِنْدَ الذَّبِيحَةِ وَ ارْمِ الشَّهَوَاتِ وَ الخَسَاسَةَ وَ الدَّنَاءَةَ وَ الْأَفْعَالَ الذَّمِيمَةَ عِنْدَ رَمْيِ الْجَمَرَاتِ وَ احْلِقِ الْعُيُوبَ الظَّاهِرَةَ وَ الْبَاطِنَةَ بِحَلْقِ رَأسِكَ وَ ادْخُلْ فِي أَمَانِ اللَّهِ تَعَالَى وَ كَنَفِهِ وَ سَتْرِهِ وَ حِفْظِهِ وَ كِلَائِهِ مِنْ مُتَابَعَةِ مُرَادِكَ بِدُخُولِ الْحَرَمِ وَ زُرِ الْبَيْتَ مُتَحَفِّفاً لِتَعْظِيمِ صَاحِبِهِ وَ مَعْرِفَتِهِ وَ جَلَالِهِ وَ سُلْطَانِهِ وَ اسْتَلِمِ الْحَجَرَ رِضًى بِقِسْمَتِهِ وَ خُضُوعاً لِعَظَمَتِهِ وَ دَعْ مَا سِوَاهُ بِطَوَافِ الْوَدَاعِ وَ صَفِّ رُوحَكَ وَ سِرَّكَ لِلِقَاءِ اللَّهِ تَعَالَى يَوْمَ تَلْقَاهُ بِوُقُوفِكَ عَلَى الصَّفَا وَ كُنْ ذَا مُرُوَّةٍ مِنَ اللَّهِ بِفِنَاءِ أَوْصَافِكَ عِنْدَ الْمَرْوَةِ وَ اسْتَقِمْ عَلَى شُرُوطِ حَجِّكَ وَ وَفَاءِ عَهْدِكَ الَّذِي عَاهَدْتَ بِهِ مَعَ رَبَّكَ وَ أَوْجَبْتَهُ إِلَى يَوْمِ الْقِيَامَةِ وَ اعْلَمْ بِأَنَّ اللَّهَ لَمْ يَفْتَرِضِ الْحَجَّ وَ لَمْ يَخُصَّهُ مِنْ جَمِيعِ الطَّاعَاتِ إِلّا بِالْإِضَافَةِ إِلَى نَفْسِهِ بِقَوْلِهِ تَعَالَى وَ لِلَّهِ عَلَى النَّاسِ حِجُّ الْبَيْتِ مَنِ اسْتَطاعَ إِلَيْهِ سَبِيلًا (وَ لَا شَرَعَ نَبِيُّهُ) سُنَّةً فِي خِلَالِ الْمَنَاسِكِ عَلَى تَرْتِيبِ مَا شَرَعَهُ إِلَّا لِلِاسْتِعْدَادِ وَ الْإِشَارَةِ إِلَى الْمَوْتِ وَ الْقَبْرِ وَ الْبَعْثِ وَ الْقِيَامَةِ وَ فَصَّلَ بَيَانَ السَّبْقِ مِنْ دُخُولِ الْجَنَّةِ أَهْلُهَا وَ دُخُولِ النَّارِ أَهْلُهَا بِمُشَاهَدَةِ مَنَاسِكِ الْحَجِّ مِنْ أَوَّلِهَا إِلَى آخِرِهَا لِأُولِي الْأَلْبَابِ وَ أُولِي النُّهَى»* مصباح الشریعہ کے سو ابواب میں سے بائیسواں باب حج کے آداب اور خانہ خدا کی زیارت کے بارے میں ہے امام صادق علیہ السلام نے اس باب میں حج کے معنوی اور عرفانی آداب کا ذکر فرمایا ہے اور فقھاء کرام نے حج کے احکام اور شرائط کو اپنے رسائلِ مناسکِ حج میں ذکر کیا ہے لیکن امام صادق علیہ السلام نے [اس باب میں] حج کے کچھ اسرار و آداب کو بیان فرمایا ہے «قَالَ الصَّادِقُ علیہ السلام: إِذَا أَرَدْتَ الْحَجَّ فَجَرِّدْ قَلْبَكَ لِلَّهِ عَزَّ وَ جَلَّ مِنْ قَبْلِ عَزْمِكَ مِنْ كُلِّ شَاغِلٍ وَ حِجابِ كُلِّ حَاجِبٍ»امام صادق علیہ السلام فرماتے ہیں:جب بیت اللہ کی زیارت کا قصد و ارادہ کرو تو اپنے اندر حج کے معنوی آداب کو پیدا کرو ان آداب میں سے بعض کو بیان فرمایا ہے «فَجَرِّدْ قَلْبَكَ لِلَّهِ عَزَّ وَ جَلَّ»دل کو فقط اور فقط خداوند عزت و جلال کے لئے آمادہ و بچا کر رکھو «مِنْ قَبْلِ عَزْمِكَ مِنْ كُلِّ شَاغِلٍ وَ حِجَابِ کُلِّ حَاجِبٍ»؛ سفر کا ارادہ کرنے اور اپنا سامانِ سفر باندھنے اور خانہ خدا کی زیارت کو جانے سے پہلے چاہے وہ عمرہ ہو یا واجب حج یا مستحب نہایت ضروری ہے کہ ہر وہ چیز جو تمہارے دل کو مشغول و مصروف رکھتی ہو اسی طرح باقی وہ تمام حجاب جو تمہیں خدا کی جانب جانے سے روکتے ہیں انہیں دل سے باہر نکالو. «وَ فَوِّضْ أُمُورَكَ كُلَّهَا إِلَى خَالِقِكَ» تمام امور چاہے وہ چھوٹے ہوں یا بڑے سب اس خدا کے سپرد کرو جو تمہارا خالق ہے. «وَ تَوَكَّلْ عَلَيْهِ فِي جَمِيعِ مَا يَظْهَرُ مِنْ حَرَكَاتِكَ وَ سُكُونِكَ»؛ اسی طرح واجب ہے کہ جو کچھ تمہارے حرکات و سکنات سے ظاہر ہوتا ہے اس کے لئے خدا پر توکل کرو یعنی خود کو مکمل خدا کے سپرد کر دو اور ذرہ برابر اضطراب و پریشانی کا احساس نہ کرو کہ میں ایک لمبے اور دور دراز سفر کے لئے نکل رہا ہوں بلکہ خدا پر مکمل بھروسہ رکھو اور اپنے تمام امور کی باگ ڈور خدا کے سپرد کر دو. «وَ سَلِّمْ لِقَضَائِهِ وَ حُكْمِهِ وَ قَدَرِهِ» اور خداوند متعال کی قضا و قدر کے سامنے تسلیم ہو جاؤ؛ چونکہ جب انسان خود کو خدا کے سپرد کر دے اور اسکے سامنے سر تسلیم خم ہو جائے تو پھر پریشانی کی کیا بات! جو کچھ ہونا چاہے گا وہ ہو کر رہے گا. «وَ دَعِ الدُّنْيَا وَ الرَّاحَةَ وَ الْخَلْقَ»؛ دنیا کی طرف پشت کر لو دنیا کی راحت و عیش اور مخلوق خدا کو نیز الوداع کہ دو صرف خدا کی طرف غور کرو. «وَ اخْرُجْ مِنْ حُقُوقٍ تَلْزَمُكَ مِنْ جِهَةِ الْمَخْلُوقِينَ»؛ بیت اللہ الحرام کی زیارت پر جانے سے پہلے لوگوں کے حقوق ادا کرو اگر تمہارے ذمہ حقوق الناس واجب الادا ہیں اگر تم نے کسی کا حق دینا ہے تو سب سے پہلے انکو ادا کرو. «وَ لَا تَعْتَمِدْ عَلَى زَادِكَ وَ رَاحِلَتِكَ وَ أَصْحَابِكَ وَ قُوَّتِكَ وَ شَبَابِكَ وَ مَالِكَ»؛ کبھی بھی اپنے زاد راہ پر بھروسہ نہ کرو! «راحلہ» یعنی ہوائی جہاز یا دوسرے وسائل پر اعتماد نہ کرو یہ نہ کہو کہ [یہ وسائل ] مجھے منزل مقصود تک لے جائیں گے. «وَ أَصحَابِکَ»؛ اسی طرح تم خیال کرو کہ اس قافلے کے ساتھ جا رہا ہوں تو یہ دوست احباب میری مدد کریں گے نہیں، بلکہ تمہاری تکیہ گاہ اور ملجا و ماویٰ صرف ذات باری تعالیٰ ہونی چاہیے. «وَ قُوَّتِکَ»؛ مبادا جسمانی قوت و طاقت کو اپنی ڈھال سمجھنا اور یہ کہنا کہ ہم عافیت و سلامتی رکھتے ہیں. یہ تمام امور خطرے کی زد میں ہیں اور ممکن ہے کسی بھی وقت ہاتھ سے چلے جائیں. «وَ شَبَابِکَ»؛ اپنی جوانی اور زور بازو کی طرف بھی نگاہ نہ کرو. «وَ مَالِکَ»؛ اپنے مال کی طرف بھی نظر نہ کرو. *ان سب کی طرف کیوں نگاہ نہیں کرنی چاہیے* ؟ «مَخَافَۃَ أَنْ یَصِیروا لَکَ عَدُوًّا وَبَالاً»؛ کیونکہ ممکن ہے کسی دن یہ تمام چیزیں جنکو تم نے اپنے لئے ڈھال تصور کیا ہوا ہے تمہارے دشمن اور وبال جان بن جائیں. «فَأِنَّ مَن ادَّعَی رِضَا اللَّہِ وَ اعتَمَدَ عَلَی شیءٍ صَیَّرَہُ عَلَیہِ عَدُوًا و وَبَالًا»؛ اگر کوئی منافقت کی روش پر چل نکلے ایک طرف کہے کہ میں اپنے اعمال میں خدا کی رضا حاصل کرنا چاہتا ہوں اور دوسری طرف خدا کی طرف بالکل توجہ نہ کرے ۔ اُن امور پر اعتماد کرے جنکا ہم نے اوپر ذکر کیا ہے. اگر اسکی تکیہ گاہ خدا نہ ہو اور جھوٹ بولے یعنی زبان سے تو کہتا ہے لیکن مَن کا سچا نہیں ہے ؛ امام علیہ السلام فرماتے ہیں: یہی قادر متعال پروردگار اسکے ساتھ کیا سلوک کرتا ہے ؟ «صَیَّرَہُ عَلَیہِ عَدُوًّا وَ وَبَالاً»؛ وہی خدا کہ جس سے یہ انسان روگرداں ہے اور اسکے ساتھ نفاق پر مبنی رویہ رکھے ہوئے ہے اور اسکے ساتھ جھوٹ بولتا ہے تو خداوند متعال ان تمام وسائل جو کہ اس انسان کی امید تھے انکو اسکی دشمنی میں تبدیل کر دیتا ہے اور خدا اس کام کو انجام دیتا ہے. اور فرماتا ہے کہ اے میرے بندے! مجھ سے جھوٹ بولتے ہو؟ اب دیکھو میں کیا کرتا ہوں. خداوند عالم ایسا کیوں کرتا ہے ؟ اسکے پس پردہ ایک حکمت کارفرما ہے. «لِیَعْلَمَ أَنَّہُ لَیْسَ قُوَّۃٌ وَلَا حِیْلَۃٌ وَلَا لِأحَدٍ أِلَّا بِعِصْمَۃِ اللَّہِ تَعَالَی وَ تَوْفِیقِہِ»؛ ان تمام امور کو اسکا دشمن بنا دیتا ہے تاکہ یہ انسان اپنے آپ کی طرف لوٹے اور سمجھ لے کہ خدا کیساتھ جھوٹ بولتا آیا ہے ایک طرف کہتا ہے کہ مجھے خدا کی رضا مطلوب ہے دوسری طرف چاہتا ہے کہ مخلوق کو بھی راضی کر لے اور اعتماد ان چیزوں پر کرتا ہے جنکی ارزش و قیمت، خدا کی قدرت و توانائی کے مقابلے میں کچھ بھی نہیں ہے؛ لذا جب خداوند متعال نے ان تمام امور کو اسکا دشمن کر دیا اور وہ انسان متوجہ ہوگیا کہ یہ سب چیزیں اسکے کسی کام کی نہیں ہیں اور اسے خدا کی طرف رجوع کرنا چاہیے اس وقت یہ انسان متوجہ ہو جاتا ہے کہ وہ سب چیزیں ذرہ بھر قدرت نہیں رکھتی اور کوئی بھی اسکے امور کی اصلاح نہیں کر سکتا اور کوئی بھی اسکی مدد نہیں کر سکتا مگر خدا چاہے تو. «وَ اسْتَعِدَّ اسْتِعْدَادَ مَن لَا یَرجُو الرُّجُوع»؛ خود کو ایسے آمادہ کرو اور خدا کے سپرد کرو یہ نہ کہو کہ ابھی جا رہا ہوں اپنے کاموں کو انجام دوں گا حج کروں گا اور پھر اپنے گھر، بیوی بچوں کی طرف لوٹ آؤں گا یعنی خود کو یہ امید مت دو یعنی اپنی ذات کی طرف توجہ نہ کرو بلکہ اپنے آپکو خدا کے حوالے کرو کیونکہ ممکن ہے واپس لوٹ کر نہ آؤ! «وَ أَحْسِنِ الصُّحْبَۃَ»؛ اپنے ساتھیوں کے ساتھ اخلاق و اچھی رفتار سے پیش آؤ اور انکے لئے ایک اچھے ساتھی اور ہمنشین بن کر رہو. «وَ رَاعِ أَوقَاتَ فَرَائِضِ اللَّہِ تَعَالَی»؛ مراعات اختیار کرو جب واجب ادا کرنے کا وقت ہو جائے تو فرائض کی ادائیگی میں سستی نہ کرو یعنی نمازوں کو انکے اوقات میں بجا لاؤ؛ کیونکہ سفر کر رہے ہو تھوڑی دیر آگے پیچھے کی تو قضا ہو جائیگی. «وَ سُنَنَ نَبِیِّہِ»؛ اور اسی طرح جتنا ممکن ہے مستحبات اور سنتوں کو بجا لانے میں کوتاہی نہ کرو. «وَ مَا يَجِبُ عَلَيْكَ مِنَ الْأَدَبِ وَ الِاحْتِمَالِ وَ الصَّبْرِ وَ الشُّكْرِ وَ الشَّفَقَةِ وَ السَّخَاءِ وَ إِيْثَارِ الزَّادِّ عَلَى دَوَامِ الْأَوْقَاتِ»؛سنن الھی اور آداب بہت زیادہ ہیں لہٰذا صبر اور بردباری سے کام لینا چاہیے اس مبارک سفر میں شکر و حمد الھی، شفقت، دلسوزی، اور سخاوت ہونی چاہیے ہمیشہ ان سنتوں اور آداب جنکا ہم نے نام لیا ہے کی رعایت کرنا؛ اگر کسی کو کوئی احتیاج ہو تو اپنے زاد راہ سے ایثار کرنا اور اسے خالی ہاتھ نہ لوٹانا. «ثُمَّ اغْتَسِلْ بِمَاءِ التِّوبَۃِ الخَالِصَۃِ ذُنُوبَکَ»؛ گناہوں کو حتماً خالص پانی کیساتھ دھونا ممکن ہے حضرت کی مراد غسل توبہ کے علاوہ ہے یعنی وہ آنسو جو ایک سچی توبہ کرنے والا بہاتا ہے اور خدا سے بخشش کی طلب کرتا ہے ایسے آنسو بہاؤ. «وَ البَسْ کِسْوَۃَ الصِّدْقِ والصَّفَاءِ وَ الخُضُوعِ وَ الخُشُوعِ»؛ جب حج پہ عازم ہونا چاہو تو لباسِ احرام سے پہلے، لباسِ صداقت، سچائی، صفا، خضوع و خشوع پہن لو لباسِ احرام پہننے سے قبل ان معنوی و روحانی لباسوں کو اپنے اندر ایجاد کر لو. «وَ أَحْرِمْ عَنْ کُلِّ شَیءٍ یَمْنَعُکَ عَنْ ذِکرِ اللّہِ عَزَّ وَ جَلَّ»؛ حاجی جب احرام پہنتا ہے تو پچیس چیزیں اس پر حرام ہو جاتی ہیں امام علیہ السلام فرماتے ہیں تمہیں چاہیے کہ معنوی احرام پہنو یعنی ہر وہ چیز جو تجھے یادِ خدا سے غافل کرے اسکو اپنے اوپر حرام قرار دے دو. «وَ یَحْجُبُکَ عَن طَاعَتِہِ»؛ اور ان چیزوں سے بھی دوری اختیار کرو جو تمہیں اطاعتِ الہی سے روکتی ہیں. «وَ لَبِّ بِمَعنَی أِجَابَۃٍ صَافِیَۃٍ خَالِصَۃٍ زَاکِیِۃٍ لِلَّہِ عَزَّ وَ جَلَّ»؛ جب وہاں پہنچو تو دو کپڑے احرام پہن لو اور نیت کرنے کے بعد یوں تلبیہ پڑھو :«لَبَّیْکَ اللَّھُمَّ لَبَّیْکَ لَبَّیْکَ لَا شَرِیکَ لَکَ لَبَّیْک». یہ فقط زبانی تلبیہ ہے لیکن تمہارا تلبیہ زبانی کے ساتھ تلبیہ حقیقی ہونا چاہیے تلبیہ حقیقی یہ ہے کہ یوں کہو اے خدا! میں نے آپکی ندا « وَ لِلَّہِ عَلَی النَّاسِ حِجُّ البَیْتِ مَنِ استَطاعَ أِلَیْہِ سَبِیلًا» پر لبیک کہی ہے؛میں نے آپکی دعوت کو قبول کیا ہے اور اس مقدس دیار میں آیا ہوں، لیکن خیال رہے کہ اس دعوت الہی کی آواز کو قبول کرنا اور لبیک کہنا صاف و شفاف اور خالص خدا کے لئے ہو اور ذرہ برابر بھی اس میں ریا، خودنمائی اور شہرت کا شائبہ تک نہ ہو. «فِی دَعْوَتِکَ لَہُ»؛ یہ ذات باری کا کرم اور دعوت تھی کہ تم یہاں تک آئے. «مُتَمَسِّکاً بِالْعُرْوۃِ الْوُثْقَی»؛ خدا کی محکم رسی سے تمسک کرو. «وَ طُف بِقَلبِکَ مَعَ المَلَاٸِکةِ»؛ جب خدا کے گھر کی زیارت کو جاؤ اور خانہ کعبہ کے سات چکرلگانا چاہو تو یہاں ظاہری طور پر تمہارا بدن طواف کر رہا ہے باطنی طور پر کیسا ہونا چاہیے؟امام علیہ السلام فرماتے ہیں وہ طواف باطنی بھی ہونا چاہیے اور دل وجان سے طواف کرو اور جان لو کہ تم خانہ کعبہ کے اردگرد فرشتوں کیساتھ طوافِ کعبہ میں مشغول ہو. «مَعَ المَلَاٸِکَةِ حَولَ العَرشِ کَطَوَافِکَ مَعَ المُسلِمِینَ بِنَفسِکَ حَولَ البَیتِ»؛ ایک طواف قلبی طواف ہے جو کہ ملاٸکہ کیساتھ کر رہے ہو، ایسے فرشتے جو عرشِ الھی کے اردگرد طواف کر رہے ہیں تم بھی ایسی ہی نیت کرو کیونکہ کہتے ہیں کہ مومن کا قلب عرش الھی ہے پس اس بنا پر ظاہری طواف کیساتھ ساتھ قلبی طواف بھی انجام دو یہ قلبی طواف، اس ظاہری طواف سے کمتر نہیں ہونا چاہیے جو کہ مسلمانوں کے ساتھ ملکر خانہ کعبہ کے اطراف میں کر رہے ہو. «وَ ھَروِل ھَروَلَةً مِن ھَوَاکَ وَ تَبَرِّیاً مِن جَمِیعِ حَولِکَ وَ قُوَّتِکَ»؛ جب حاجی صفا و مروہ کی سعی بجا لاتا ہے تو راستے میں ایک ایسی جگہ بھی ہے جہاں مستحب ہے کہ چند قدم تیز چلے یعنی پاٶں اور کندھوں کو ہلاٸے اور تھوڑا تیز چلے کیونکہ کہتے ہیں کہ حضرت ہاجرہ علیھا السلام ، جب اپنے بیٹے اسماعیل علیہ السلام کے لٸے پانی لینے گٸیں تو اسی طرح چلی تھی یعنی تھوڑا تیز دوڑی تھیں۔ دور سے انہوں نے پانی دیکھا اور اُس طرف لپکیں لیکن درمیانی راستے سے واپس لوٹ آئیں اور دیکھا کہ اسماعیل علیہ السلام کے پاٶں کی جانب سے پانی کا چشمہ رواں دواں ہے کہتے ہیں کہ اس دن بی بی نے جو عمل پانی لینے کے لٸے انجام دیا وہی عمل آج حجاج بجا لاتے ہیں امام فرماتے ہیں کہ تم بھی جب یہ عمل کر رہے ہو تو خدا کی سمت تیز بھاگو یعنی عُجب اورخودپسندی کی کیفیت سے باہر نکلو اور خود کو خدا کی مملکت میں لاٶ یہ وہ راز و اسرار ہیں جو امام صادق علیہ السلام حج کے واجبات کے بارے میں بیان فرما رہے ہیں. «وَ اخرُج مِن غَفلَتِکَ وَ زَلَّاتِکَ بِخُرُوجِکَ أِلیٰ مُنًی»؛ ۔۔”مُنی“ اس آرزو اور امید کے معنی میں ہے جو حاجی سرزمین منٰی میں خداوند عالم کے سامنے رکھتا ہے. ہم دعا میں پڑھتے ہیں ”یا مُنَی قُلوبِ لامُشتَاقِین“ اے عاشقوں کے دلوں کی آرزو. اب جبکہ سرزمین منی میں داخل ہوٸے ہو تو اسکے لٸےاعمال ذکر کٸے گٸے ہیں پہلے نیت کرو کہ اے خدا میں، منی اس لٸے آیا ہوں تاکہ خود کو غفلت اور گناہوں سے دور کر سکوں. «وَلَا تَمَنَّ مَا یَحِلُّ لَکَ»؛ منی آرزو اور تمنا کے معنی میں ہے جسکے لٸے حجاج وہاں جاتے ہیں حاجی دراصل اپنی آرزٶوں کو خداوند متعال کے ہدایا اور انعامات میں منحصر کرتا ہے انسان کی آرزو میں بھی خداٸی رنگ و بو ہونی چاہیے لذا فرماتے ہیں، ایسی تمنا اور آرزو کبھی نہ کرو جو حلال نہ ہو یا جس میں خدا کی رضا شامل نہ ہو انسان کو فقط وہی آرزو کرنی چاہیے جس میں خدا کی رضا شامل ہو اور حرام چیزوں سے بچنا چاہیے. «وَلَا تَستَحِقُّہُ»؛ اور ایسی چیز کی بھی خواہش نہ کرو جسکے مستحق نہیں ہو. «وَ اعتَرِف بِالخَطَایَا بِالعَرَفَاتِ»؛ سرزمینِ عرفات میں کونسا راز ہے؟ مولا فرماتے ہیں عرفات، کا مطلب اعتراف ہے وہاں جا رہے ہو تو ایک ایک گناہ کو یاد کرو اور اعتراف کرو اور کہو اے خدا میں بہت گناہگار ہوں اور تجھ سے عفو و مغفرت کی التجا کرتا ہوں. «وَ جَدِّد عَھدَکَ عِندَ اللَّہِ تَعالَی بِوحدَانِیَّتِہِ»؛ عرفات میں خداوند عالم سے تجدید عھد اور بیعت کرو اس حال میں کہ دل میں اسکی وحدانیت کا اقرار کرتے ہو. «وَ تِقَرَّب أِلَی اللہ ذَاٸِقَہُ بِمُزدَلَفَةِ»؛ ایک اور مقدس سرزمین جسکا نام مشعرالحرام، مزدلفہ ہے وہاں جاؤ تو خدائی ذوق و شوق اپنے اندر پیدا کرو اور الھی اور معنوی ذاٸقہ محسوس کرو. «وَ اصعَد بِرُوحِکَ أِلَی المَلَإِ الاَعلَی بِصُعُودِکَ أِلَی الجَبَلِ»؛ جب مشعر الحرام کے پہاڑ پر پہنچو تو روح کو بھی ملااعلی تک پہنچاؤ. «وَ اذبَح حَنجَرَتِی الھَوَی وَ الطَّمَعِ عِندَ الذَّبِیحَةِ»؛ جب قربانی کے لٸے مذبح خانے جاؤ تو اپنی ہوا و ہوس، طمع اور خواہشِ نفس کو بھی راہ خدا میں قربان کرو. «وَ ارمِ الشَّھَوَاتِ وَ الخَسَاسَةِ وَ الدَّناَٸَةِ»؛ جب رمی جمرات کرنے جاؤ تو نیت کرو کہ میں خواہشاتِ نفسانی، طولانی آرزٶوں اور پستی اور ذلت سے خود کو دور کروں گا. «وَ الاَفعَالَ الذَّمِیمَةِ عِندَ رَمیِ الجَمَرَاتِ»؛ اے خدا اس پتھر مارنے کے ساتھ چاہتا ہوں کہ خود سے برے اخلاق، غلط اور بد افعال خود سے دور کروں. «وَ احلِقِ العُیُوبَ الظَّاھِرَةَ وَ البَاطِنَةَ بِحَلقِ رَأسِکَ»؛ جب حلق کرانا چاہو یعنی جب سر کو تراشو جو کہ پہلی دفعہ واجب ہے تو اس طرح نیت کرو کہ اے خدا میں اپنے ظاہری اور باطنی عیوب کو تراشنا چاہتا ہوں اور خود سے زاٸل کرنا چاہتا ہوں. «وَ ادخُل فِی أَمَانِ اللہِ تَعَالَی وَ کَنَفِہِ وَ سَترِہِ وَ حِفظِہِ وَ کِلَاٸِہِ مِن مُتَابَعَةِ مُرَادِکَ بِدُخُولِ الحَرَمِ»؛ ان اعمال کو بجا لانے کے بعد مکہ جو حرمِ امنِ الھی ہے کی طرف لوٹنا چاہو تو اس طرح نیت کرو کہ یہ سر زمین، امن کی سرزمین ہے اس بنا پر میں خود کو امنِ الھی کے حرم میں داخل کرتا ہوں میں خود کو خداوند متعال کی حمایت اور حفاظت میں قرار دیتا ہوں جب خانہ کعبہ میں داخل ہو تو ایسے نیت کرو. «وَ زُرِ البَیتَ مُتَحَفِّفًا لِتَعظِیمِ صَاحِبِہِ وَ مَعرِفَتِہِ وَ حَلَالِہِ وَ سُلطَانِہِ»؛ جب خانہ خدا کا طواف اور زیارت کرنا چاہو تو اس طرح نیت کرو کہ خدایا میں فقط ان در ودیوار کا طواف کرنے نہیں آیا بلکہ میں اس گھر کے مالک کی تلاش میں ہوں میں خدا کی عظمت و جلالت سے آشنا ہوناچاہتا ہوں ان سب چیزوں کا نیت کرتے وقت دھیان رکھے. «وَ اسْتَلِمِ الَحَجَرَ رِضًی بِقِسْمَتِہِ وَ خُضُوعاً»؛ جب حجر اسود کی زیارت کا موقع ملے تو یوں کہو: اے خدا جو کچھ آپ نے قضا و قدر میں میرے لئے لکھا ہوا ہے یا جو رزق و روزی میرے نصیب میں لکھی ہے میں ان سب پر راضی ہوں خدایا میں تیری عظمت و بزرگی کے سامنے متواضع اور خوار ہوں۔ «وَ دَعْ مَا سِوَاہُ بِطَوَافِ الْوَدَاعِ»؛الوداعی طواف، آخری مستحب ہے جو حاجی بجالاتا ہے پس طواف کرتے وقت غیر خدا کو وداع کرو اس طواف میں یہ نیت ہونی چاہیے کہ اے خدا: یہ طواف فقط تیری ذات مقدس کے لئے انجام دیتا ہوں یعنی میں نے تیرے غیر سے منہ موڑ لیا ہے اور فقط تجھ سے تجھے چاہتا ہوں. «وَ صَفِّ رُوحَکَ وَ سِرَّکَ لِلِقَاءِ اللَّہِ تَعَالَی یَومَ تَلْقَاہُ بِوُقُوفِکَ عَلَی الصَّفَا»؛ جب خانہ خدا کے طواف سے فارغ ہو جاو اور صفا و مروہ کی سعی کرنے چاہو اور جب تمہارا قدم کوہِ صفا پر رکھو تو آپکی فکر معرفت اور معنویت پر مبنی ہونی چاہیے یعنی کہو اے خدا: میں کوہِ صفا پر آیا ہوں تاکہ اپنی روح و باطن کیساتھ تجھ سے ملاقات کروں اے پروردگار میں نے خود کو ایک امر عظیم کے لئے تیار و آمادہ کیا ہے. «وَ کُنْ ذَا مُرُوَّۃٍ مِنَ اللَّہِ بِفِنَاءِ أَوصَافِکَ عِندَ المَرْوَۃِ»؛ جب کوہِ صفا کی طرف جاو اور اولین قدم جب کوہِ صفا پر رکھو تو با مروت رہو و مردانگی میں خود کو فنا کر دو ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔یہ مروت و جوانمردی ہے. «وَ اسْتَقِمْ عَلَی شُرُوطِ حَجِّکَ وَ وَفَاءِ عَھْدِکَ الَّذی عَاھَدْتَ بِہِ مَعَ رَبِّکَ وَ أَوْجَبْتَہُ أِلَی یَوْمَ القِیَامَۃِ»؛ تمام اعمال بجا لانے کے بعد کہو: اے خدا ! میں نے حج کو شرائط و آداب کیساتھ ادا کیا ہے اور جب وطن واپس لوٹنا چاہو تو یوں کہو: اے خدا میں اس راستے پر استقامت و پایداری اور وفائے عھد کیساتھ تا روز قیامت ثابت قدم رہوں گا. «وَ اعْلَمْ بِأَنَّ اللَّہَ لَم یَفْتَرِضِ الْحَجَّ وَ لَمْ یَخُصَّہُ مِنْ جَمِیْعِ الطَّاعَاتِ أِلَّا بِالْاِضَافَۃِ أِلَی نَفْسِہِ»؛ اے وہ شخص کہ جس نے خدا کے گھر کی زیارت کا ارادہ کیا ہے جان لے تمام فرائض اور عبادات جو کہ اللہ نے مسلمانوں پر فرض کی ہیں ان میں سے تنہا حج ایسی عبادت ہے جسے اپنی طرف نسبت دی ہے؛ اور قرآن میں ارشاد فرماتا ہے « وَ لِلَّہِ عَلَی النَّاسِ حِجُّ البَیْتِ مَنِ استَطَاعَ أِلَیْہِ سَبِیلًا»؛ اس آیت میں لفظ (لِلَّہِ) یعنی یہ حج فقط اور فقط خدا کے لئے انجام دی جائے یہ جو (لِلَّہِ) فرمایا ہے اس کا مطلب یہ ہے کہ خداوند متعال نے خانہ خدا کے حج کو اپنی طرف نسبت دی ہے پس ہمیں چاہیے کہ حج میں خداوند منان کو تلاش کریں. جیسا کہ قران مجید میں بھی ارشاد ہوا ہے ویسے ہی ہمارا حج بھی حج عرفانی ہونا چاہیے. ہم امید کرتے ہیں جو اسرار امام صادق علیہ السلام نے بیان فرمائے ہیں انہی کے مطابق ایک حقیقی اور کامل حج بجا لائیں. اے خدا ہمیں بھی ایسے آداب و اسرار کیساتھ حج بجا لانے کی توفیق عطا فرما. «وَ لَا شَرَّعَ نَبِیُّہُ فِی خِلَالِ المَنَاسِکِ عَلَی تَرْتِیْبِ مَا شَرَعَہُ أِلَّا لِلْاِسْتِعْدَادِ وَ الْاِشَارَۃِ أِلَی المَوْتِ وِ القَبْرِ وَ البَعْثِ وَ القِیَامَۃِ»؛ امام صادق علیہ السلام ان جملات میں ارشاد فرماتے ہیں : پیغمبر خدا نے بھی خداوند متعال کی طرح(جیسا کہ آیت شریفہ میں بیان ہو چکا ہے کہ وَ لِلّہِ عَلَی النَّاسِ ۔۔۔۔تا آخر۔۔ کہ عبادات میں سے فقط حج کو ہی خداوند منان نے اپنی طرف نسبت دی ہے ) لفظ (لِلّہِ) اس آیت میں اس مطلب کو بیان کر رہا ہے کہ حج کا فرض فقط خداوند بزرگ کی ذات کے لئے انجام دیا جائے اور یہ حج کی تشریح احکامِ قرآنی کے ضمن میں خداوند متعال کی جانب سے صادر ہوئی ہے. اسی طرح پیغمبر اکرم صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم نے خدا کے فرمائے ہوئے مناسک، اعمال اور فرائض کو حاجیوں پر فرض کیا ہے. «لَا شَرَّعَ نَبِیُّہُ فِی خِلَالِ المَنَاسِکِ عَلَی تَرْتِیْبِ مَا شَرَعَہُ أِلَّا لِلْاِسْتِعْدَادِ»؛ پیغمبر اکرم صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم نے سننِ حج کو اسی ترتیب کیساتھ بیان فرمایا ہے جس ترتیب سے خداوند عالم نے حج کے احکام کو ذکر کیا ہے یعنی قولِ پیغمبر، قَولِ خدا ہے. «اَطِیعُو اللَّہَ وَ أَطِیعُوا الرَّسُول.»اسکے بعد فرماتے ہیں: «أِلَّا لِلْاِسْتِعْدَادِ وَ الْاِشَارَۃِ أِلَی المَوْتِ»؛ حج کے اعمال اور سنن کے شروع سے لے کر آخر تک قیامت اور محشر کا سماں ہے تاکہ انسان موت، قبر، حشر اور قیامت کی طرف متوجہ ہو جائے اور خود کو ان مراحل کے تیار رکھے. جب ہم حج پر جاتے ہیں تو دیکھتے ہیں کہ تمام مرد دو سفید کپڑوں میں ہیں ایک کو کاندھے پر ڈالا ہوا ہے اور دوسرے کو چادر کے طور باندھا ہوا ہے. عورتوں کا لباس بھی سفید ہے یہ سفید احرام باندھنا دراصل میت کے کفن کی حکایت کرتا ہے کہ جب انسان فوت ہوتا ہے تو اسے سفید کفن پہنایا جاتا ہے تو یہ قیامت اور محشر کے منظر کی عکاسی کرتا ہے؛ جب مردے اپنی قبروں سے باہر نکلیں گے اور بہت زیادہ لوگ عدالتِ الھی میں پیش ہونگے اسی طرح لاکھوں سب حاجی بھی اعمال باھم مشترک انجام دیتے ہیں؛ مشعر الحرام، عرفات، منیٰ اور صفا و مروہ. پس یہ الھی و پیغمبری دستور ، مناسک حج کے لئے بیان نہیں ہوئے ہیں بلکہ مندرجہ ذیل اسرار اور حکمتوں کی وجہ سے فرض کئے گئے ہیں : استطاعت اور تیار رہنا،اور موت، قبر،مبعوث ہونا اور قیامت کے عرفانی اشارے. «فَصَّلَ بَیَانِ السَّبْقِ مِن دُخُولِ الجَنَّۃِ أَھْلُھَا وَ دُخُولِ النَّارِ أَھْلُھَا بِمُشَاھَدَۃِ مَنَاسِکِ الحَجِّ مِن أَوَّلِھَا أِلَی آخِرِھَا لِأُولِی الأَلْبَابِ وَ أُولِی النُّھَی»؛ حج کے اعمال ایسے ہیں جس میں لوگوں کی سبقت اور شوق کی نشاندہی ہوتی ہے ؛ بعض لوگ اھلِ بہشت ہیں اور خود کو جنت تک پہنچاتے ہیں جبکہ بعض لوگ امر خدا کی مخالفت اور نافرمانی کی وجہ سے جہنم میں چلے جاتے ہیں یہ تمام حالتیں مناسک حج میں مشاہدہ کی جا سکتی ہیں. «مِنْ أَوَّلِھَا أِلَی آخِرِھَا»؛ حج کے اعمال کی ابتداء سے لے کر انتہا تک ایسے اسرار پائے جاتے ہیں جو کہ قیامت کی عکاسی کرتے ہیں. «لِأُولِی الأَلْبَابِ وَ أُولِی النُّھَی»؛ اگرچہ یہ نصیحت حاصل کرنا اور عرفانی اسرار کو کشف کرنا فقط صاحبانِ عقل و اندیشہ لوگوں کا کام ہے وہ ان خالص اسرار کو ان اعمال سے کشف کر سکتے ہیں. آخر میں خداوند متعال سے امید کرتے ہیں کہ ہمیں خانہ خدا کی زیارت کا شرف حاصل کرنے کی توفیق عطا فرمائے اور مناسک حج کو بصیرت کی آنکھ اور حکمت کو درک کرنے کیساتھ بجا لانے کی توفیق عطا فرمائے. وَ صَلَّی اللہُ عَلَی مُحَمَّدٍ وَ آلِہِ الطَّاہِرِیْن. |