بسم اللہ الرحمٰن الرحیم
دوسروں کے حقوق کی رعایت کرنا
سالک کا رویہ لوگوں کیساتھ اجتماعی اور انفرادی معاملات میں انتہائی محترمانہ ہوتا ہے اور وہ تمام معاملات میں دوسروں کے حقوق کو مدنظر رکھتا ہے سالک کا یہ رابطہ تمام افراد جیسے بیوی،بچے، ماں ،باپ ھمسایوں ،دوست احباب اور دور و نزدیک کے تمام افراد کیساتھ یکساں ہوتا ہے
سالک پر واجب ہے کہ وہ ہر کسی کا حق احسن طریقے سے ادا کرے اور کسی پر ظلم و ستم روا نہ رکھے دوسرے لوگوں کے معاملات میں عدالت کو مدنظر رکھے کیونکہ سیر و سلوک میں سستی و کاہلی سے کام لینا دراصل یہی ظلم و ستم ہے اور سالک کو اسکا علم بھی نہیں ہوتا کہ یہ کہاں سے آئی ہے۔
پس سالک کے لئے ضروری ہے کہ وہ کسی شخص کو بھی اذیت و آزار دینے سے پرہیز کرے اور کسی کے حق میں ذرہ برابر بھی کوتاہی نہ کرے اور اسکا ظاہر و باطن تمام لوگوں کے ساتھ یکساں ہونا چاہیے اور انگلی کے پور کے برابر بھی شریعت کی حدود سے تجاوز نہ کرے کیونکہ ایسی صورت میں خداوند متعال کی نظر رحمت سے محروم ہوجائے گا جبکہ خود اسے بھی اسکا علم نہیں ہو پائے گا لیکن وقت گزرنے کے ساتھ ساتھ اسے اسکے کھونے کا احساس ہوتا ہے
شرح درس :
دوسروں کے حقوق کی رعایت نہ کرنا معنوی اثرات سے غفلت اور انکے زایل ہونے کا سبب بنتا ہے
بعض اوقات سیر و سلوک میں سستی، کاہلی ، غفلت اور نسیان عارض ہو جاتا ہے جبکہ ہم وہی سالک ہوتے ہیں جو سنجیدگی سے محنت و کوشش کر رہے ہوتے ہیں پس سوال یہ ہے کہ ایسا کیوں ہوتا ہے ؟
اسکی وجہ یہ ہے کہ ہم اپنے اعمال و کردار میں توجہ نہیں کرتے اگر اپنے اعمال پر توجہ مرکوز رکھتے اور لوگوں کے حقوق کو بھی نظر انداز نہ کرتے تو ایسا کبھی نہ ہوتا۔
حقوق کی تین اقسام ہیں
1-نفس کے حقوق
2-اللہ تعالیٰ کے حقوق(حقوق اللہ)
3-معاشرے کے حقوق (حقوق العباد)
پہلے مرحلے میں انسان کے اپنے حقوق ہیں جن کے بارے میں خداوند متعال قرآن مجید میں فرماتا ہے
«و ما ظلمناھم و لکن کانوا انفسھم یظلمون»(1)
اپنے نفسوں پر ظلم کرنا بدترین ظلم ہے
خود اپنی طرف توجہ کرنا
انسانی جسم کے یہ اعضا جنکو خداوند عالم نے خلق فرمایا ہے یہ سب خداوند متعال کی طرف سے امانت ہیں آنکھیں ، کان، ہاتھ ، پاؤں ، ظاہر اور باطن ان سب اعضاء کو وہیں استعمال کرنا چاہیے جہاں پر استعمال کرنے کا حکم دیا گیا ہے پس اگر ہم نے ان اعضاء کو وہاں استعمال نہ کیا جہاں کرنے کا حق تھا تو پھر ہم نے اپنے اوپر ظلم کیا ہے پس یہ بھی حق کی ایک قسم ہے جسکی رعایت کرنا ہم سب پر واجب ہے بعض لوگ ایسے بھی ہیں جو اپنے آپ سے غافل ہیں لیکن دوسرے کے لئے دل سوزی کرتے ہیں یعنی اگر انسان اس بات کا تقابلی جائزہ لے تو دیکھتا ہے کہ جتنی دل سوزی اسے اپنے بارے میں کرنی چاہیے تھی اس سے زیادہ دوسروں کے بارے میں کرتا ہے ہمیشہ دوسروں کو نصیحت و رہنمائی و ھدایت کرنا چاہتا ہے دوسروں کو نیکیوں کا حکم دینا چاہتا ہے ہمیشہ خطاکار و گناہگاروں لوگوں کی محفل کی تلاش میں رہتا ہے مثال کے طور پر بعض مبلغین چاہتے ہیں کہ بس دوسروں کو تبلیغ کرتے رہیں کتابیں لکھیں اور لوگوں کو سیدھے راستے کی طرف رہنمائی کریں انکی ساری توجہ لوگوں کی طرف ہوتی ہے پس سوال یہ ہے کہ اپنے آپ کو کب درک کرے گا؟ کب اپنے بارے میں غور وفکر کرے گا
ہم دیکھتے ہیں کہ جب بھی محرم و صفر اور ایام فاطمیہ آتے ہیں تو اسی بات کی فکر میں ہوتے ہیں کہ کہاں پر تبلیغی جلسہ رکھنا چاہیے تاکہ لوگوں کو تبلیغ کر سکیں
ہم یہ نہیں کہنا چاہتے کہ یہ سب ٹھیک نہیں ہے بلکہ یہ سارے امور واجب اور ضروری ہیں لیکن کیا دوسروں کو وعظ و نصیحت کرنے سے پہلے ہم نے خود اپنی تربیت کر لی ہے ؟ کتنی ہم نے اپنے آپ کو تبلیغ کی ہے ؟
لہذا دوسروں کے بارے میں دل سوزی کرنے سے پہلے تھوڑا سا اپنے بارے میں بھی سوچ لینا چاہیے کہ میرا دل خود اپنے لئے کیوں نہیں تڑپتا
کم از کم ہمیں موازنہ کرنا چاہیے کہ جتنا ہم دوسروں کے لئے دل سوزی کا مظاہرہ کرتے ہیں کبھی اپنے لئے بھی اتنا دل تڑپا ہے ؟؟
ہم کہاں جا رہے ہیں ؟
کتنی ہم نے ترقی کر لی ہے ؟ لہذا اس زاویہ سے دیکھنا بہت ضروری ہے کہ پہلے اپنے حقوق کو ادا کرنا چاہیے (یعنی انسان کو اس ضرب المثل ٫٫دوسروں کو نصیحت خود میاں فضیحت،، کا مصداق نہیں بننا چاہیے)
امام سجاد علیہ السلام کا مختلف حقوق کے بارے میں بیان
امام سجاد علیہ السلام کا رسالہ حقوق پڑھیں جس میں امام علیہ السلام نے آنکھ، کان، ہاتھ، پاؤں کے حقوق اور اس جسم کی حفاظت کی کتنی تاکید فرمائی ہے جو شخص بغیر حساب کتاب کے ریاضت کو شروع کرتا ہے اور پھر یہ گمان کرتا ہے کہ بہت اچھا کام انجام دے رہا ہے اس شخص کو زحمت اور رنج کے سوا کچھ حاصل نہیں ہوگا کم کھانے اور کم سونے سے اپنے آپ کو عذاب میں مبتلا کرتا رہتا ہے یہ شخص در اصل غلطی پر ہے
خاص طور پر جوانی کے ایام میں جب شھوت کے ساتھ درگیر ہوتا ہے اور شھوت رانی سے نکلنا چاہتا ہے اور ایسے سوچتا ہے کہ اگر جسم کی طاقت سے زیادہ ریاضت اور مشقت کرے تو صحیح راستے کی جانب گامزن ہوگا آنکھوں اور بدن کو کمزور کر دیتا ہے خود کو بیماریوں میں مبتلا کر دیتا ہے دراصل یہ ایسے لوگ ہوتے ہیں جنکے پاس استاد نہیں ہوتا یا وہ استاد کی نصیحت “”یعنی تھوڑا خود پر رحم کرو “” پر عمل نہیں کرتے
ہر مستحب عمل اگر واجب میں رکاوٹ بنے تو حرام ہے
ہمارے پاس ایک روایت ہے کہ اگر مستحب اعمال ، واجبات کو نقصان پہنچائیں تو مستحبات کو ترک کر دینا چاہیے (کیونکہ وہ کام اب شریعت کے منافی ہے)(2)
مثال کے طور پر ایک شخص بہت زیادہ روزے رکھتا ہے لیکن ان روزوں کی وجہ سے بعض واجب کام چھوٹ جاتے ہیں یا اسے اپنی تعلیمی سرگرمیوں کو احسن طریقے سے انجام دینا چاہیے لیکن چونکہ مستحب اعمال بجا لاتا رہتا ہے اس لئے اصلی اور مھم کاموں میں پیچھے رہ جاتا ہے اسی افراط و تفریط کی وجہ سے سالک کسی مقام تک نہیں پہنچ سکتا خاص طور پر وہ سالک جو استاد کے ماتحت کام کر رہا ہے
حقوق اللہ کی طرف توجہ
حقوق کی اقسام میں سے دوسری قسم حقوق اللہ ہیں یہاں پر ہمیں جاننا چاہیے کہ خداوند متعال ہم سے کیا چاہتا ہے اور ہمیں کیسے اسکی عبادت کرنی چاہیے خدا سے جھوٹ نہ بولیں ہمیشہ اپنی عبادات ، رفتار و کردار اور اسی طرح اپنے باطن اور نیتوں میں خدا کیساتھ سچے رہیں وہ خدا جو کہ ہمارے باطن سے بھی باخبر ہے یہاں پر ہمیں کتنا خیال رکھنے کی ضرورت ہے کہ کہیں خدا نہ کرے ہمارے دل میں ایسی بری نیت سرایت کرے کہ جسکو خدا پسند نہیں کرتا ؟
خداوند متعال کا سب سے بڑا اور عظیم حق اسکا ہر جگہ موجود ہونا ہے پس انسان کو خدا کی موجودگی کا خیال رکھنا چاہیے کہ وہ عظیم ذات جو اسکی شہر رگ سے بھی زیادہ قریب ہے اور اسکے ظاہر و باطن سے باخبر ہے۔
پس دیکھیں کتنا خیال رکھنے کی ضرورت ہے کہ کسی بھی وقت ہمارا عمل ، ہماری رائے ،ہمارا کردار ایسا نہ ہو جو رضائے الٰہی کے مخالف ہو اگر ہم سے ایسا کچھ سرزد ہو گیا تو یہاں پر ہم نے حق الہی کو پائمال کیا یہاں پر مزید بھی گفتگو کرنے کی گنجائش ہے
حق الناس کی طرف توجہ
حقوق کی تیسری قسم حق الناس یعنی لوگوں کے حقوق ہیں اس مطلب کو ہم اس لئے ذکر کر رہے ہیں چونکہ بعض لوگ جب اس موضوع کی طرف آتے ہیں تو یہ تصور کرتے ہیں کہ ساری چیزوں کو چھوڑ دیں والدین کو چھوڑ دیں بیوی بچوں کے حقوق کو چھوڑ دیں تعلیمی سرگرمیاں اسی طرح باقی زندگی کے امور سب کو چھوڑ دیں چونکہ ایسے سوچتا ہے کہ اگر ان حقوق کو ادا کرنے لگ گئے تو خداوند متعال کی عبادت سے پیچھے رہ جائیں گے عملی زندگی میں ناکام ہوجائیں گے در حقیقت یہ سب سے بڑی غلطی ہے
روحانی ترقی حقوق کی ادائیگی پر منحصر ہے
ہم صرف اس وقت روحانی و معنوی ترقی کر سکتے ہیں جب ان حقوق کے بارے میں اپنے اندر مسئولیت کا احساس پیدا کریں جو ہمارے اوپر لازم ہے
کہاں پر ہم نے کوتاھی کی ہے ؟کن لوگوں پر ظلم کیا ہے ؟
کس کے ساتھ بے انصافی کی ہے؟
ان سب امور کو ٹھیک کریں ہم بیوی بچوں اور اسی طرح دوسروں کے حقوق پر ڈاکہ ڈالنے سے کبھی بھی خدا کے نزدیک نہیں ہو سکتے۔
سالک اپنے وظایف اور حقوق ادا کرنے سے آشنائی رکھتا ہو
پس سالک کو سب سے زیادہ ان امور کی رعایت کرنی چاہیے خاص طور پر ہمارے استاد محترم تاکید فرماتے تھے کہ جو افراد اس وادی میں قدم رکھنا چاہتے ہیں وہ سب سے پہلے شرح وظایف اور شرح حقوق نامی کتابوں کا مطالعہ کریں تاکہ دیکھیں کہ وہ حقوق جو انکی گردن پر ہیں انکو اچھی طرح انجام دیا ہے یا نہیں ؟
ہم نے کہا کہ اگر سالک پھر بھی ترقی نہیں کر رہا تو اسے جاننا چاہیے کہ کسی جگہ مشکل ضرور ہے اسے چاہیے کہ لوٹ جائے اور دوبارہ شروع سے اپنا محاسبہ شروع کرے اور سوچے کہ کونسا حق اس نے صحیح ادا نہیں کیا اور ظلم سے کام لیا ہے پہلے اسکو درست کرے چونکہ اگر اسکو صحیح ادا نہ کیا یا چشم پوشی سے کام لیا ہو تو یہ شخص شیطان کی سمت چلا جائے گا فکر کرتا ہے کہ اس نے ایک روحانی حالت کو درک کر لیا بلکہ وہ فقط تلبیس(مکر و فریب) ابلیس ہے
شریعت میں کوتاھی توفیقات کو سلب کر دیتی ہے
پس ہمارے لئے ممکن نہیں ہے کہ ہم انگلی کے پور کے برابر بھی شریعت اور احکام شرعی میں کوتاہی کریں اگر سالک احکام قرآنی و شرعی میں کوتاھی کرے تو اتنی ہی مقدار اس سے توفیق سلب کر لی جائے گی
ظاہر و باطن ایک جیسا ہونا چاہیے
ایک اور نکتہ جس کی طرف سالک کو توجہ کرنے کی ضرورت ہے وہ یہ کہ اسکا ظاہر و باطن یکساں ہو اگر ظاہر میں کچھ اور ہو اور باطن میں کچھ اور تو یہ طریقہ درست نہیں ہے بلکہ یہ منافقت ہے
منافقت سالک کو منہ کے بل گراتی ہے
نفاق کا معنی کیا ہے؟
یعنی دو پہلو سے بات کرنا ، دو طریقوں سے میل جول رکھنا ، باطن میں اور نیت ہو لیکن ظاہر میں اسکے برخلاف انجام دے یہ منافقت ان چیزوں میں سے ہے جو سالک کو منہ کے بل گراتی ہے اس میں کوئی فرق نہیں چاہے ہمیشہ ایسا کرتا رہے یا بعض اوقات۔ جہاں پر سالک کو احساس ہو کہ اس کام سے عدالت اور صداقت کا خاتمہ ہو جائے گا تو اسی جگہ کو درست کرے ایسا نہ کہے کہ کچھ نہیں ہوتا کیونکہ ایسی صورت میں ایک اور مشکل پیش آئے گی جسکو حل نہیں کر پائے گا پس بہتر یہی ہے جہاں پیچیدگی اور مشکل آئے اسی جگہ کو درست کرے اور اگر ٹھیک نہیں کرے گا تو اسکے حالات بدتر ہوتے جائیں گے اور پھر خود کو کوسے گا کہ میں ایسا کیوں ہو گیا ہوں
دوسروں کے حقوق کی رعایت نہ کرنا راہ خدا سے ڈگمگانے کا موجب بنتا ہے
اگر کوئی ان حقوق کی رعایت نہ کرے تو ممکن ہے حق کی راہ کو چھوڑ دے کیونکہ خداوند سبحان آپ سے یہ چاہتا ہے کہ کسی کو بھی اذیت نہ کرو، اس قدر اپنی بیوی کو اذیت نہ دو ، گھر کے کاموں کو منظم رکھو جتنا وقت درس و تدریس میں لگاتے ہو اتنا گھریلو امور کو بھی دیا کرو کیونکہ آپکی بیوی کا آپکے علاوہ کون ہے
بیوی اور خانوادہ کے حقوق کو ادا کرنا لازمی ہے
خداوند متعال مردوں اور عورتوں کے بارے میں فرماتا ہے
عَاشِرُوھُنَّ بِالْمَعْرُوفِ(3)
اپنی عورتوں کیساتھ نیکی اور خوش رفتاری سے پیش آو۔
رسول خدا صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم فرماتے ہیں :
اگر تم سے بیوی بد اخلاقی سے پیش آئے تو اسے معاف کر دو پس جس کسی نے بھی بیوی کی بد اخلاقی پر صبر کیا تو خداوند متعال اسے حضرت ایوب علیہ السلام جتنا اجر مرحمت فرمائے گا
پس جو کوئی گھریلو کام کاج میں بیوی کی مدد کرے گا تو اسکے بدن کے ہر بال کے برابر ایک سال کی عبادت(وہ بھی شرائط کیساتھ) کا ثواب عطا فرمائے گا اسی طرح اگر کوئی مرد گھر میں تکبر و نخوت سے کام نہ لے تو خداوند عالم اسے شھداء میں سے قرار دے گا
آپکی بیوی ، اپنے ماں ،باپ سب رشتہ داروں کو چھوڑ کر دن رات آپکی خدمت میں مشغول ہے اگر مرد اپنی ذمہ داری میں کوتاہی کرے تو گویا اس نے بیوی پر ظلم و ستم کیا ہے۔
کم از کم جتنا ممکن ہو سکے منصوبہ بندی کرے درس و بحث کے لئے برنامہ تشکیل دے اسی طرح مختلف پروگراموں کی منصوبہ بندی کرے
یہاں تک کہ بیوی، بچوں ، رشتہ داروں، ماں ، باپ الغرض ہر کام کے لئے منصوبہ بندی کرے ایسا نہ ہو کہ منصوبہ بندی کے بغیر جیسا کام چل رہا ہے چلتا رہے فرصت ختم ہونے سے پہلے بیدار ہونا چاہیے اگر وقت نکل گیا تو پھر کچھ بھی ہاتھ نہیں آئے گا
ابھی جوانی کی ابتداء ہے ممکن ہے گذرے ہوئے لمحات کا جبران کر سکیں اور خداوند متعال سے دعا کریں کہ اس راہ میں ہمیں توفیق عطا فرمائے۔
خانوادگی زندگی اور بیوی کے حقوق کے بارے میں مکرر سفارش
آخر میں ہم آپ بہن بھائیوں کو بہت زیادہ تاکید کرتے ہیں کہ بیویوں کے حقوق کی طرف خاص توجہ کریں اور ایک دوسرے کا احترام کیا کریں خاص طور پر مردوں کو کیونکہ گھر کا انتظام اور بیوی کا نان و نفقہ اسکی ذمہ داری ہے ان کے لئے ضروری ہے کہ بیویوں کی خطاؤں سے عفو درگزر اور انکے عیبوں سے چشم پوشی کو اپنا وظیفہ قرار دیں ۔
میں اس بات کو واضح کرنا چاہتا ہوں کہ بعض خواتین چاہے سالک ہوں یا غیر سالک میرے پاس آتی ہیں اور رو رو کر اپنی مظلومیت کا شکوہ کرتی ہیں جستجو اور تحقیق کے بعد میں دل سے ناراض ہوتا ہوں کہ کیوں سیر و سلوک والے گھرانوں میں ایسے مسائل پیش آتے ہیں میں دوبارہ تاکید کرنا چاہتا ہوں کہ جو جوان بھی شادی کرنا چاہتا ہے اسے ازدواجی مسائل پر تربیت لینی چاہیے اور ان سے مکمل مطلع اور آگاہ ہو بغیر معلومات اور آنکھیں بند کر کے شادی نہیں کرنی چاہیے میاں بیوی کو چاہیے کہ ہفتہ میں کم از کم میٹنگ تشکیل دینی چاہیے جس میں ان امور پر تبادلہ خیال کریں جو اختلافی ہیں انکو افھام و تفھیم سے حل کرنے کی کوشش کریں۔
حوالہ جات :
1-سورہ نحل آیت 118(ہم نے ان پر ظلم و ستم نہیں کیا بلکہ وہ خود اپنی جانوں پر ظلم کرنے والے ہیں۔
2-نھج البلاغہ، حکمت 39 ،لا قربة بالنوافل اذا أضرًّت بالفرائض؛ مستحب عمل انسان کو خدا کے نزدیک نہیں کرتا جب وہ واجب امور میں خلل ڈال رہا ہو۔
3- سوره نساء ، آیہ 19